28 نومبر ، 2023
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر تعلیم دشمن رویہ رکھنے والے لوگ ہیں۔ تعلیم کے نام پر جو کچھ ہمارے بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے اسکے اثرات معاشرے پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ اختلاف رائے اور مخالفت کا فرق ختم ہو چکا ہے۔علمی مکالمہ ناپید ہو چکا ہے۔
تعلیمی اداروں میں سوال کرنے کا رجحان اس حد تک ناپید ہو چکا ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر اگر کوئی طالب علم سوال کرے تو اسے اساتذہ کے متعصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ دینی اداروں میں زیادہ سوال کرنیوالے کو گستاخ اور بے ادب تصور کیا جاتا ہے۔ایک ایسے تعلیمی ماحول میں جہاں پاکستان اپنے جی ڈی پی کا محض 2.3 فیصد تعلیم پر خرچ کر رہا ہو، جہاں شرح خواندگی کو 66 فیصد ظاہر تو کیا جائے لیکن زمینی حقائق اس سے قطعاً مختلف ہوں، ایک ایسا ملک جو یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی معیار کے اعتبار سے دنیا میں 152نمبر پر ہے،جہاں اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد 23فیصد ہو،جہاں کووڈ کے بعد تقریباً 9لاکھ 70ہزار بچے جو اسکول چھوڑ گئے اور واپس ہی نہ آئے، جہاں کا تعلیمی نظام پرائمری معیار کے عالمی اہداف حاصل کرنے میں 50سال پیچھے ہو، وہاں مختلف حیلےبہانوں سے اسکول بند کرنا تعلیم دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟
ہمارے تعلیمی ادارے کبھی سردیوں کے نام پر بند ہوتے ہیں تو کبھی گرمیوں کے نام پر، کبھی دسمبر کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو کبھی اپریل کی تعطیلات، کبھی طلبہ ہڑتال پر ہوتے ہیں تو کبھی اساتذہ سڑکوں پر،مردم شماری ہو یا الیکشن ڈیوٹی، المختصر پاکستان کا کوئی بھی ایسا کام جس کا تعلیم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اسے سرانجام دینے کیلئے تعلیمی سرگرمیاں معطل کر کے اساتذہ کرام کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا جاتا ہو،وہاں اسموگ کے نام پر تعلیمی ادارے بند کرنا علم دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر اسموگ ہوتی ہے؟
ایسا نہیں ہے۔دنیا میں پہلی مرتبہ اسموگ کا لفظ 1950ء کی دہائی میں استعمال کیا گیا جب یورپ اور امریکہ کو پہلی بار صنعتی انقلاب کی وجہ سے فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔40 فیصد امریکی ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں اسموگ یعنی آلودگی کی مقدار کافی زیادہ ہے۔ چین میں فضائی آلودگی 2013ء میں دنیا میں سب سے زیادہ تھی لیکن ستمبر 2013ء میں اس حوالے سے اپنے واضح پلان کا اعلان کیا اس پلان پر عملدرآمد کے بعد فضائی آلودگی میں واضح کمی آئی۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ صنعتی ممالک اس مسئلے سے دوچار ہیں لیکن آج تک کہیں سے بھی یہ رپورٹ نہیں ہوا کہ کسی بھی ملک نے اپنے تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہوں بلکہ ان ممالک نے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف اس مسئلے پر قابو پایا۔
ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اسموگ کے اسباب میں 40 فیصد حصہ ان ناقص اور غیر معیاری ڈیزل گاڑیوں کا ہے جن کا زہریلا دھواں اسموگ کا سبب بنتا ہے۔ اسکے بعد وہ فیکٹریاں ہیں جو کوالٹی کنٹرول کے بغیر چل رہی ہیں ان کا دھواں اسموگ کا سبب بن رہا ہے۔ تیسرے نمبر پر اینٹوں کے وہ بھٹے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے بجائے قدیم ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں اور انکی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ چوتھے نمبر پر فصلوں کی باقیات کا جلایا جانا اسموگ کا سبب ہے۔
ہمارے ارباب بست و کشاد نے نہ تو گاڑیوں کی مناسب چیکنگ کا بندوبست کیا، نہ فیکٹریوں کے کوالٹی کنٹرول پر زور دیا،نہ فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد کی اور اگر پابندی عائد کی بھی گئی تو اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسموگ اس وقت پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو کی ایئر کوالٹی لائف انڈیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا کی آلودگی کے سبب سالانہ ایک لاکھ 35ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔جبکہ ان میں سے زیادہ اموات پنجاب میں ہو رہی ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے سانس، ڈسٹ الرجی اور دل کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور کی موجودہ فضا میں اگر کوئی صحتمند شخص سانس لیتا ہے تو وہ گویا 300 سگریٹس کے برابر دھواں اپنے پھیپھڑوں میں اتار رہا ہوتا ہے لیکن اس سنگین مسئلے سے نپٹنے کیلئے ہماری افسر شاہی اور حکمرانوں کے پاس کوئی طویل المعیاد منصوبہ موجود نہیں۔2017 ء میں فضائی آلودگی سے نپٹنے کیلئے ایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا جو پنجاب حکومت کی فائلوں میں ہی دبا رہ گیا۔اور اب حکمرانوں کا سارا زور تعلیمی اداروں اور کاروبار بند کرنے پر صرف ہو رہا ہے۔
فیکٹریاں فضا آلودہ کر رہی ہیں، غیر معیاری بھٹے فضائی آلودگی میں دن بدن اضافہ کر رہے ہیں، فصلوں کی باقیات دھڑا دھڑ جلائی جا رہی ہیں،لیکن افسر شاہی کا سارا نزلہ تاجروں اور اسکولوں پر گر رہا ہے،خدارا ہوش کے ناخن لیں تعلیم دشمن رویہ ترک کریں اور اگر اس مسئلے پر قابو پانا ہے تو یہ اقدامات کریں۔ ذاتی ٹرانسپورٹ کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت اجاگر کی جائے، غیر معیاری اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی نقل و حمل بند کی جائے، حکومت کو ری سائیکلنگ اور ری یوز کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے،پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے، جنگلات کے کاٹنے اور انہیں جلانے پر پابندی ہونی چاہیے اور درخت کاٹنے والوں کیخلاف فوجداری کارروائی کرنی چاہئے، ایئرکنڈیشنر کے غیر ضروری استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، شجرکاری کے رجحان میں اضافہ کرنا چاہیے،اور شجرکاری صرف حکومت کی فائلوں میں نہیں بلکہ گراؤنڈ پر ہونی چاہئے۔ اس کیلئے کثیر الجہتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے اور دکانیں بند کرنے سے اسموگ پر تو شاید کوئی اثر نہ پڑے لیکن تعلیم اور کاروبار دونوں مزید تباہ ہو جائیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔