ناشتہ نہ کرنے کی عادت کے 3 حیرت انگیز اثرات

ناشتہ نہ کرنے کے اثرات دنگ کر دینے والے ہیں / فائل فوٹو
ناشتہ نہ کرنے کے اثرات دنگ کر دینے والے ہیں / فائل فوٹو

روزمرہ کی مصروفیات میں بیشتر افراد ناشتہ نہیں کرتے مگر تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ صبح کی پہلی غذا سے دوری توقعات سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

دنیا کے کچھ خطے ایسے ہیں جہاں لوگوں کی اوسط عمر دیگر کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔

ان خطوں کے لیے بلیو زون کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور وہاں رہنے والوں پر طویل عرصے سے تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق ناشتہ دن کی سب سے اہم غذا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ناشتے سے جسم کو دن کے آغاز پر توانائی ملتی ہے اور آپ کے پاس موقع ہوتا ہے کہ صحت بخش غذاؤں سے جسم کو دن کا آغاز کرنے دیں۔

ناشتہ نہ کرنے سے صحت پر مرتب ہونے والے 3 منفی اثرات درج ذیل ہیں۔

توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوتا ہے

ناشتے سے ہمارے دماغ کو دن کے آغاز پر کام کرنے کے لیے ضروری توانائی ملتی ہے۔

اس کے مقابلے میں ناشتہ نہ کرنے سے دماغ پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ذہن کے لیے کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو افراد ناشتہ نہیں کرتے یا صحت کے لیے نقصان دہ غذاؤں سے دن کا آغاز کرتے ہیں، وہ دن بھر میں ناقص دماغی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ایسے افراد کے لیے اپنے کاموں پر توجہ مرکوز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

تناؤ کا سامنا ہوتا ہے

ناشتہ نہ کرنے سے تناؤ بڑھانے کا باعث بننے والا ہارمون کورٹیسول صرف جذباتی تناؤ پر ہی ردعمل ظاہر نہیں کرتا بلکہ جسمانی تناؤ کے ردعمل کو بھی بدل دیتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتہ نہ کرنے سے صبح کے وقت کورٹیسول کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں کھانے کی اشتہا بڑھ جاتی ہے جبکہ دماغی اور جسمانی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

مزاج اور نیند بھی متاثر ہوتے ہیں

اگر آپ اکثر ناشتہ نہیں کرتے تو نیند یا مزاج دونوں اس عادت سے متاثر ہوتے ہیں۔

طالبعلموں پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتہ نہ کرنے سے نیند کا معیار متاثر ہوتا ہے اور ڈپریشن کی علامات کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اسی طرح ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناشتہ نہ کرنے سے نیند کے معیار، مزاج اور غذائی عادات میں تبدیلیاں آتی ہیں۔

جو لوگ ناشتہ کرتے ہیں، ان کی نیند کا معیار بہتر ہوتا ہے جبکہ صبح اٹھنے پر مزاج بھی خوشگوار ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔