24 فروری ، 2024
اسلام آباد: نیب نے اپنے تمام دفاتر کیلئے نیا معیاری ضابطہ کار (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز) جاری کیا ہے تاکہ صرف اصل اور حقیقی شکایات پر ہی کارروائی کی جا سکے، اور اعتراف کیا ہے غیر ضروری شکایات کی وجہ سے قیمتی وقت اور وسائل ضایع ہوتے ہیں اور بیورو کی کارروائیوں اور اس کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نئے ایس او پیز میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ شکایات نمٹانے میں بد احتیاطی دور کرنے کیلئے درست سمت کا تعین ضروری ہے تاکہ معاشرے اور ریاست کے مختلف حلقوں میں پائے جانے والے خوف اور دباؤ کے حوالے سے بڑھتے تاثر کو دور کیا جا سکے۔
اس ضمن میں شکایات کے اندراج کے نظام اور انہیں پراسیس کرنے کو اسٹریم لائن کیا گیا ہے اور بدنیتی پر مبنی شکایات اور غیر سنجیدہ شکایات کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے، ایسی شکایات کو قابلِ سزا جرم قرار دیا جائے گا، ارکان پارلیمنٹ، سرکاری افسران اور تاجروں کیخلاف شکایات کے ازالے کیلئے ان کے بنیادی تحفظات دور کیا جائے گا اور نیب کی کارروائیوں میں زیادہ شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام کو یقینی بنایا جائے گا۔
ایس او پیز کے مطابق منتخب نمائندوں کیخلاف شکایات پر کارروائی کیلئے علیحدہ ہدایات جاری کی جا رہی ہیں۔ تاہم، سرکاری ملازمین کیخلاف شکایات کی صورت میں درج ذیل ہدایات جاری کی گئی ہیں جن پر سختی سے عمل کی تلقین کی گئی ہے:
۱) سرکاری ملازمین کیخلاف گمنام شکایات پر غور نہیں کیا جائے گا
۲) شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران سرکاری اہلکاروں کی شناخت کو صیغۂ راز میں رکھا جائے گا
۳) گریڈ 19؍ تک کے افسران کیخلاف شکایات پر کارروائی کا اختیار ریجنل ڈائریکٹر جنرلز کو دیا گیا ہے جبکہ گریڈ 20؍ اور اس سے بالا گریڈ کے افسران کیخلاف شکایات پر کارروائی کیلئے چیئرمین نیب کی منظوری درکار ہوگی
۴) شکایت کی تصدیق اور انکوائری کے مرحلے کے دوران سرکاری ملازمین کو نیب کے احاطے میں ذاتی حیثیت میں طلب نہیں کیا جائے گا
۵) متعلقہ صوبائی چیف سیکریٹریز کی مشاورت سے ریجنل ڈائریکٹر جنرلز متعلقہ سول سیکرٹریٹ میں اکاؤنٹبلٹی فیسلیٹیشن سیلز (اے ایف سیز) قائم کریں گے
۶) تمام خط و کتابت اور معلومات کا اشتراک اے ایف سیز کے ذریعے کیا جائے گا۔
تاجروں کیخلاف شکایات پر غور کیلئے ایس او پیز میں لکھا ہے
۱) تاجروں کیخلاف کسی گمنام شکایت پر غور نہیں کیا جائے گا
۲) تاجروں کی شناخت کو سختی سے صیغۂ راز میں رکھا جائے گا
۳) شکایت کی تصدیق کے مرحلے کے دوران کسی تاجر کو نیب احاطے میں طلب نہیں کیا جائے گا
۴) باوقار انداز سے تحقیقات کیلئے نیب کے ریجنل آفس میں ایک علیحدہ بزنس فیسیلیٹیشن سیل (بی ایف سی) قائم کیا جائے گا۔
بی ایف سی متعلقہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمائندے، ریئلٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے اور دیگر کاروباری تنظیموں کے نمائندوں پر مشتمل ہوگی (کیس کی بنیاد پر اگر ضرورت محسوس ہو تو)۔
نئے ایس او پیز کے مطابق تمام شکایات کو درج ذیل ترجیحی احکامات کے تحت فوری طور پر نمٹایا جائے گا
۱) وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور متعلقہ وزارتوں سے موصول ہونے والی شکایت
۲) معزز عدالتوں کی طرف سے ارسال کردہ شکایات
۳) قومی اسمبلی، سینیٹ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے بھیجی گئی شکایت
۴) سرکاری محکموں، ریگولیٹری اداروں، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور بینکوں وغیرہ کی طرف سے بھیجی گئی شکایات
۵) انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے بھیجی گئی شکایات
۶) چیمبر آف کامرس، بزنس ہاؤسز اور کارپوریٹ اداروں کی طرف سے بھیجی گئی شکایات، ۷) چیئرمین نیب کی طرف سے منظور کردہ شکایات
۸) نیب کے علاقائی ڈی جیز کی طرف سے بھیجی گئی شکایات
۹) نیب حکام سے متعلق شکایات
۱۰) عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکا دینے کی شکایت
۱۱) کسی فرد کی طرف سے دائر کردہ شکایات۔
معیار پر پورا نہ اترنے والی تمام زیر التواء شکایات متعلقہ ریجنل بیورو دفاتر کے ذریعے نمٹائی جائیں گی۔
جاری گمنام/ فرضی شکایات کی صورت میں (جن میں کچھ شواہد بھی موجود ہوں) علاقائی بیوروز کو پہلے شکایات کا پتہ لگانے کا اختیار حاصل ہوگا اور تصدیق کے بعد تصدیق کا عمل جاری رکھنے کیلئے نیب ہیڈکوارٹر سے منظوری حاصل کی جائے گی۔
نئے ضابطہ کار (ٹی او آرز) جاری کرتے ہوئے نیب نے اعتراف کیا ہے کہ بیورو کے قیام سے لیکر اب تک اس کی کارکردگی کا معروضی جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ قانونی طور پر سنجیدہ شکایات پر زیادہ توجہ مرکوز کرکے سزا کی شرح کو تیزی سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوا ہے کہ طے شدہ معیار اور ریگولیٹری فریم ورک موجود نہیں جس کی مدد سے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ شکایات میں فرق کیا جا سکے۔ نتیجتاً، غیر سنجیدہ شکایات پر کارروائی میں قیمتی وقت اور وسائل ضایع ہو جاتے ہیں جس سے نیب کی کارروائیاں اور کوششیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔
شکایات نمٹانے میں بد احتیاطی دور کرنے کیلئے درست سمت کا تعین ضروری ہے تاکہ معاشرے اور ریاست کے مختلف حلقوں میں پائے جانے والے خوف اور دباؤ کے حوالے سے بڑھتے تاثر کو دور کیا جا سکے۔