17 مارچ ، 2024
اسلام آباد: حکومت اقتصادی وزارتوں کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان کے مابین بہتر رابطہ کاری کےلیے ایک اداراہ جاتی مکینزم قائم کرنے اور وزیراعظم ہاؤس کو آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کی مانیٹرنگ کا کام بھی سونپنے پر غور ہو رہا ہے۔
باخبر ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ وزیراعظم کو ان کے ماہرین کی ٹیم کے چند اہم ارکان نے بتایا ہے کہ وزیراعظم چاہیں تو ای سی سی کی صدارت خود کرنے پرغور کر سکتے ہیں۔
یہ خیال کیاجارہا ہے کہ اس سے اعلیٰ ترین سیاسی قیادت اور اقتصادی معاملات کی سمت کا اشارہ ملتا ہے۔ کابینہ ڈویژن ایک خصوصی یونٹ قائم کرنے کی تجویز پر بھی غور کر رہا ہے تاکہ ای سی سی کے فیصلوں کے نفاذ کی نگرانی ہوسکے۔
ذرائع نے کہا کہ اقتصادی نوعیت کی وزارتوں کا کام بٹا ہوا ہے جس پر بھرپور گفتگو کی گئی اور اس مسئلے کو تسلیم کیا گیا۔ چنانچہ اس غرض سے بہتر ادارہ جاتی مکینزم کی ضرورت سامنے آئی تاکہ ملک کو موجودہ اقتصادی دلدل سے باہر نکالنے کے بڑے ایجنڈے کے حصول پر ڈالا جاسکے اور پائیدار اقتصادی ترقی اور خودانحصاری حاصل کی جاسکے۔
ایک اعلیٰ حکومتی ذریعے نے بتایا کہ ’’ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ مزید سخت ادارہ جاتی مکینزم بنائے تاکہ پروگراموں اور مداخلتوں کو مربوط بنایا جاسکے۔
اس نے مزید کہا کہ’’ اقتصادی معاملات سے متعلق وزارتیں بکھری ہوئی ہیں اور یوں مختلف حصوں میں بٹ کر کام کر رہی ہیں۔ ان کے مسابقانہ نوعیت کے مقاصد ہیں اور اسی طرح ان کی کارکردگی کے اشاریے بھی مسابقانہ ہیں۔
یہ کہا جارہا ہے کہ پالیسی کی ہم آہنگی قابل پیمائش نتائج کے حصول میں ضروری سنگ میل ہے۔
وزیراعظم کو بین الوزارتی اکنامک ایکشن کمیٹی کی تشکیل کی سفارش کی گئی ہے جس کے پاس خصوصی مینڈیٹ ہو کہ وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں اچھی طرح سوچ بچار کی ہوئی تجاویز پیش کر سکے اور اس کے فیصلوں کا نفاذ کراسکے۔
بین الوزارتی اکنامک ایکشن کمیٹی کے حوالے سے تجویز دی گئی ہے کہ یہ خزانہ، منصوبہ بندی ، تجارت، صنعت، ریونیو، سرمایہ کاری بورڈ، پٹرولیم، بجلی، قومی غذائی سکیورٹی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارتوں کے سیکرٹریوں پر مشتمل ہو۔
وزیر اعظم نے سفارش کی کہ وہ اقتصادی تعاون کمیٹی کی صدارت پر چاہیں تو غور کر سکتے ہیں۔ اس قسم کے اقدام سے توقع کی جارہی ہے کہ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا بالخصوص ملک کی اقتصادی بحالی کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے اور اہم کھلاڑیوں سے جس قسم کی توجہ درکار ہے وہ مل پائے گی۔
آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ سے متعلق وزیراعظم ہاؤس کا کردار بھی زیر بحث آیا ہے، ان ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور حکومت آئی ایم ایف سے ایک اور توسیع شدہ سہولت کا پروگرام لینے پر سوچ بچار کر رہی ہے اس لیے وزیراعظم سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ وزیراعظم آفس کو اس پروگرام کے نفاذ کی نگرانی کی ذمہ داری تفویض کی جائے۔