24 اپریل ، 2024
ہارٹ اٹیک، فالج یا دیگر امراض قلب سے بچنا چاہتے ہیں؟ تو تیز رفتاری سے چہل قدمی یا دیگر ورزشوں کو اپنا معمول بنالیں۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی سرگرمیوں سے دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جسمانی سرگرمیوں سے دماغ کے اندر تناؤ سے جڑے مسائل کی شدت گھٹ جاتی ہے۔
تحقیق سے وضاحت ہوتی ہے کہ آخر ڈپریشن کے شکار افراد میں امراض قلب کا خطرہ کیوں ہوتا ہے، عموماً اس دماغی مرض کو تناؤ سے منسلک کیا جاتا ہے۔
یہ تو پہلے سے معلوم ہے کہ جسمانی سرگرمیوں سے امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے کیونکہ ورزش کرنے سے خون میں چکنائی کی سطح گھٹ جاتی ہے، بلڈ پریشر کم ہوتا ہے جبکہ شریانوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔
مگر محققین نے بتایا کہ اب بھی ہمیں جسمانی سرگرمیوں کے مکمل فوائد کا علم نہیں اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحقیق پر کام کیا گیا۔
اس مقصد کے لیے تحقیق میں میساچوسٹس ہاسپٹل کے 50 ہزار سے زائد مریضوں کے طبی ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور ان سے جسمانی سرگرمیوں کے بارے میں بھی معلوم کیا گیا۔
ان میں سے 774 افراد کے دماغی اسکین کرائے گئے اور تناؤ سے متعلق دماغی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔
ان افراد کی صحت کا جائزہ اوسطاً 10 سال تک لیا گیا، جس دوران 12.9 فیصد میں امراض قلب کی تشخیص ہوئی۔
مگر تحقیق میں معلوم ہوا کہ جسمانی سرگرمیوں کے عادی افراد میں امراض قلب کا خطرہ 23 فیصد تک کم ہو جاتا ہے جبکہ تناؤ سے جڑی دماغی سرگرمیوں میں بھی کمی آتی ہے۔
محققین کے مطابق تناؤ میں کمی کی وجہ دماغ کے ان افعال میں بہتری ہوتی ہے جو فیصلہ سازی اور اضطراب کو کنٹرول کرنے کا کام کرتے ہیں، یہی افعال تناؤ سے متعلق ردعمل بھی کنٹرول کرتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تناؤ میں کمی سے جسمانی سرگرمیوں سے دل کی شریانوں سے جڑے نظام کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ورزش کی عادت دماغی تناؤ کو کم کرکے امراض قلب کا خطرہ کم رتی ہے۔
واضح رہے کہ ماہرین کی جانب سے ہر ہفتے 150 منٹ تک معتدل جسمانی سرگرمیوں کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
تیز رفتاری سے چہل قدمی، جاگنگ، سیڑھیاں چڑھنے اور تیراکی جیسی سرگرمیوں سے دل کی صحت کو فائدہ ہوتا ہے اور ان پر عمل کرنا زیادہ مشکل بھی نہیں ہوتا۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں شائع ہوئے۔