23 اپریل ، 2024
نیند کی کمی موجودہ عہد کا ایک عام مسئلہ ہے اور بیشتر افراد سونے کے لیے 6 گھنٹے کا وقت بھی نہیں نکال پاتے۔
مارچ 2024 میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ 6 گھنٹے سے کم وقت تک سونے والے افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔
سویڈن کی Uppsala یونیورسٹی کی تحقیق میں 2 لاکھ 47 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق کے دوران ہر رات 7 سے 8 گھنٹے تک سونے والے افراد کی صحت کا موازنہ 6 گھنٹوں سے کم وقت تک سونے والوں سے کیا گیا۔
ان افراد کی صحت کا جائزہ 12 سال تک لیا گیا، جس دوران غذائی عادات اور نیند کے اوقات کے بارے میں جاننے کے لیے سوالنامے بھروائے گئے۔
اس عرصے میں لگ بھگ 8 ہزار افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 کی تشخیص ہوئی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ہر رات 6 گھنٹے سے کم وقت تک سونے کے عادی افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ 7 سے 8 گھنٹوں تک سونے والوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔
مگر ایسا ہوتا کیوں ہے؟ اس نئی تحقیق سمیت دیگر تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیند اور ذیابیطس کے درمیان تعلق کافی پیچیدہ ہے۔
ذیابیطس کے شکار افراد کا جسم انسولین نامی ہارمون کے خلاف مزاحمت کرنے لگتا ہے اور بتدریج لبلبہ ناکافی مقدار میں یہ ہارمون بنانے لگتا ہے۔
انسولین خون میں موجود شکر یا گلوکوز کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے تاکہ تمام جسمانی خلیات تک توانائی کی فراہمی مناسب طریقے سے جاری رہے۔
ابھی یہ ٹھوس طور پر معلوم نہیں کہ نیند کی کمی سے لوگوں میں ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ کیوں بڑھتا ہے، مگر ماضی میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نیند کی کمی کے شکار افراد کے خون میں ورم اور فیٹی ایسڈز بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں انسولین کی حساسیت متاثر ہوتی ہے اور انسولین کی مزاحمت بڑھتی ہے۔
آسان الفاظ میں جسم کے اندر انسولین کو بلڈ گلوکوز کی سطح کو درست طریقے سے کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ بڑھتا ہے۔
نیند کی کمی کے ساتھ ساتھ سونے کا مخصوص وقت نہ ہونے سے جسم کی اندرونی گھڑی کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔
اندرونی گھڑی کے افعال متاثر ہونے سے کورٹیسول اور دیگر ایسے ہارمونز کے اخراج کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
یہ ہارمونز عام حالات میں دن بھر جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں تاکہ گلوکوز لیول اور جسم کی توانائی کی ضروریات کو توازن میں رکھ سکیں۔
مگر جب ان کے اخراج کا عمل متاثر ہوتا ہے تو جسم کی بلڈ گلوکوز کو کنٹرول میں رکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔
ایسے ہی عناصر کے باعث 6 گھنٹے سے کم وقت تک سونے کے عادی افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں 8 گھنٹے یا اس سے کم وقت تک نیند کے اثرات کے جائزہ لیا گیا تھا مگر یہ ممکن ہے کہ بہت زیادہ وقت تک سونے سے بھی ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جائے۔
ماضی میں ہونے والی ایک تحقیق میں نیند کے دورانیے اور ذیابیطس ٹائپ 2 کے خطرے کے درمیان تعلق دریافت کیا گیا تھا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ 7 سے 8 گھنٹے کی نیند سے ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے مگر 8 گھنٹے سے زائد نیند سے یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
زیادہ وقت تک سونے اور ذیابیطس کے درمیان تعلق کی ممکنہ وجہ جسمانی وزن میں اضافہ ہے۔
بہت زیادہ یا کم سونے کے عادی افراد کا جسمانی وزن عموماً بڑھ جاتا ہے۔
نئی اور پرانی تحقیقی رپورٹس میں ذیابیطس سے تحفظ کے لیے صحت مند طرز زندگی کو اہم قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اچھی نیند کے لیے 7 سے 8 گھنٹے کا وقت مثالی ہوتا ہے مگر دیگر عناصر بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔
صحت کے لیے مفید غذا سے بھی ذیابیطس سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
اسی طرح ورزش کرنے کی عادت بھی بلڈ گلوکوز کی سطح کو بہتر بناتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔