پاکستان
Time 27 اپریل ، 2024

جب تک افراد سے نکل کر نظام کی طرف نہیں آئیں گے معاملہ اسی طرح چلےگا: جسٹس منصور

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد کیس ملتوی کرا دئیے جاتے ہیں، جہاں عدلیہ کی جانب سےکچھ ہوتا ہے وہاں وکلاء بھی کسیوں میں تاخیر کرتے ہیں: جسٹس منصور علی شاہ کا تقریب سے خطاب۔
 ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 فیصد کیس ملتوی کرا دئیے جاتے ہیں، جہاں عدلیہ کی جانب سےکچھ ہوتا ہے وہاں وکلاء بھی کسیوں میں تاخیر کرتے ہیں: جسٹس منصور علی شاہ کا تقریب سے خطاب۔

لاہور: سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نےکہا ہےکہ ایک چیف جسٹس ہمیں ایک طرف لے جاتا ہے اور دوسرا چیف جسٹس دوسری طرف، جب تک افراد سے نکل کر نظام کی طرف نہیں آئیں گے معاملہ اسی طرح چلےگا۔

لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ نظام انصاف کی مضبوطی کے بغیرکوئی نظام نہیں چل سکتا، جو جج صحیح کام نہیں کر رہا اسے نکال باہر کریں، عدلیہ میں کرپشن پر زیرو ٹالرینس ہونی چاہیے، ادارے کو چلانے کے لیے انفرادی سوچ کو بھولنا پڑےگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نےکہا کہ عدلیہ کی تاریخ سے مطمئن نہیں، عدالتی تاریخ کا دفاع بھی نہیں کرنا چاہتا، جسٹس سسٹم کمزور ہو گا توکوئی سسٹم نہیں چلےگا، مضبوط جسٹس سسٹم دیگر اداروں کو بھی مضبوط کرےگا، یہ پہلی دفعہ ہوا ہےکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کا قانون آگیا ہے، جب تک ہم سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے آگے نہیں بڑھ سکتے۔

اس وقت پاکستان میں 2.4 ملین کیسز زیر التوا ہیں: جسٹس منصور 

ان کا کہنا تھا کہ 240 ملین کی آبادی کے لیے سپریم کورٹ جوڈیشری سروس کر رہی ہے، روزانہ 4 ہزار جج پاکستان میں کام کر رہے ہیں، ڈیلیور بھی کر رہےہیں، کچھ ایسے فیصلے بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے تنازع پیدا ہوتا ہے، 2023 میں ہم نے 1.69 ملین کیسز کے فیصلےکیے، یہ نہ سمجھیں کہ جسٹس سسٹم چل ہی نہیں رہا، ایسا بھی نہیں ہے، جسٹس سسٹم کو اور بہترکرنا چاہتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ اس وقت ہمارا سسٹم سست رفتار ہے، ہر عام آدمی بات کرتا ہےکہ سول کورٹ سے مقدمہ سپریم کورٹ پہنچنے میں 20 سال لگ جاتے ہیں، یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے، یہ غلط ہے، اس وقت پاکستان میں 2.4 ملین کیسز زیر التوا ہیں۔

انہوں نےکہا کہ ورلڈبینک رپورٹ کے مطابق ہمارا جوڈیشل انڈیکس 142 ممالک میں 130 ہے، جوڈیشل انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ بہت بری ہے، اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیاجاسکتا، زیرالتوا مقدمات حل کرنے اور تیز رفتار نظام لانےکے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لازمی ہوگا، ٹیکنالوجی اور آئی ٹی نہیں لائیں گے،کالونیل نظام کے تحت ہی چلیں گے رجسٹر بنا بنا کر تو ہم ان 2.4 ملین کیسز کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔

ٹیکنالوجی نہیں لائیں گے تو سلسلہ اسی طرح چلتا رہےگا: جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر میں کسی سیشن جج سے پوچھوں کہ فیصل آباد ڈسٹرکٹ میں مسئلہ کس چیز کا ہے،کیوں آپ کےکیسز کے فیصلے نہیں ہو رہے ہیں تو وہ اس کیس پر انگلی نہیں رکھ سکتے جس میں مسئلہ ہو، وہ نہیں بتاسکتےکہ کون سا کیس ہے جس میں 40 التوا ہوگئے ہیں، وہ نہیں بتاسکتےکہ کس کیس میں 2 سال سےگواہ پیش نہیں ہوا، وہ نہیں بتاسکتےکہ کس کیس میں اسٹے دیے دو سال ہوگئے ہیں، ہمیں اسمارٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ ڈیٹا جمع کرنا ہے، اس کا تجزیہ کرنا پڑےگا،ہم جو نیاسسٹم بنانا چاہ رہے ہیں اس میں جس کیس میں مسائل آرہے ہیں وہ الارم بینچ بنےگا، جس کیس میں 3 سال سےفیصلہ نہیں ہو رہا،گواہی نہیں ہو رہی یا التوا ہو رہے ہیں یا اسٹے ہو رہے ہیں وہ الارم بینچ ہیں، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت نہیں لائیں گے تو یہ کیسز حل نہیں ہوسکتے، سلسلہ اسی طرح چلتا رہےگا۔

جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال کر باہرکرنا ہے: جسٹس منصور

سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج کا کہنا تھا کہ ججز کی تعیناتی بھی اہم معاملہ ہے، ایک زمانے میں ایسے ججز بھی آئے جنہیں چائنا بیج کہتے ہیں، یہ جج بڑی آسانی سے ٹیسٹ دے کر  آئے تھے، ان ججوں کے فیصلے بھی آپ نے دیکھے ہوں گے،ججوں کی تعیناتی کا عمل اعلیٰ معیارکا ہونا چاہیے، اس وقت جوڈیشل کمیشن کے پاس رول زیرالتوا ہے جس پر3 اور 4 مئی کو میٹنگ رکھی گئی ہے، ہم نے دیکھنا ہےکہ ججز کی تقرری کیسے کرنی ہے، تقرر کیے جانے والے ججز کے بارے میں واضح ہونا چاہیے، اس نے اگلے 20 سال تک سسٹم میں رہنا ہے، تقرر پانے والا جج سسٹم کو بٹھا بھی سکتا ہے اور کھڑا بھی کرسکتا ہے، اس لیے بہت ضروری ہےکہ آپ جج کا کیسے تقرر کر رہے ہیں، ججز کی تقرری کے عمل میں عوامی سماعت بھی میری سوچ ہے، جج کےکردار،کام کے بارے میں دیکھیں۔ سفارشات اور درخواست سےکہ یہ اس کا بیٹا ہے، اس طرح جج نہیں بنانے ہیں۔ جو جج پرفارم نہیں کر رہا اسے نکال کر باہر کرنا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ جج پرفارم نہ کرے اور سسٹم میں 20 سال بیٹھے، اگر ایک جج نااہل ہے، نالائق ہے تو مس کنڈکٹ پر بھی اسے فوری باہر پھینکنا چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل کرپشن اور نااہلی کو برداشت نہیں کرسکتی۔

جج کی کرپشن اور نااہلی پر زیرو ٹالرینس ہونا چاہے: جسٹس منصور

ان کا کہنا تھا کہ ججز کو نکالنا اتنا آسان نہیں، اس پر گروپنگ ہوجاتی ہے،ڈسٹربنس ہوجاتی ہے، لیکن ہمیں اس مرحلے سےگزرنا ہے اور اس جج کو نکالنےکا ہدف  حاصل کرنا ہے جو اچھا نہیں ہے، ماتحت عدلیہ کا نظام بھی اسی طرح بنانا پڑےگا، جج کی کرپشن اور نااہلی پر زیرو ٹالرینس ہونا چاہے، چوتھی چیز یہ ہے آپ کے پاس اسائنمنٹ آف کیس کیسا ہے،کیس منیجمنٹ سسٹم ہے یا ویسےہی کسی کے پاس کیس لگ جاتا ہےکہ یہ کیس اس جج کےپاس لگادو کیونکہ مجھے یہ نتیجہ چاہیے، یہ نہیں ہوسکتا۔پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز میں کمیٹی فیصلہ کرتی ہےکہ کیس کہاں جانا ہے، جسٹس فیصلہ نہیں کرتےکہ کیس کہاں جائےگا، ماضی میں جوبھی چیزیں ہوگئیں ان کا مداوا ہوسکتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کو ہم نے مضبوط کرنا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر میں چیف جسٹس کا قدم قابل تحسین ہے، چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر میں اپنے اختیارات کو کم کیا اور کمیٹی بنائی۔ ایک آدمی اکیلے ادارے کو نہیں چلاسکتا، یہ بھی آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سسٹم میں مافیاز آپریٹ کر رہے ہیں، نچلی سطح پر جو یقینی بناتےہیں کہ کیس مختلف جگہوں میں جائےگا، ٹیکنالوجی اس عمل کو بھی ختم کرےگی۔

ہمارا وژن ہے پاکستان کے 138 اضلاع میں ثالثی سینٹر قائم ہوں: جسٹس منصور

جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق پاکستان میں 24 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، ڈسٹرکٹ عدالتوں میں 20 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، ہمیں تنازعات کے حل کے لیے دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہے، دنیا میں آپ سب سے آخر میں کورٹ جاتے ہیں، اس سے پہلے بہت سے راستے ہیں تنازع حل کرنےکے، ہمارے پاس بھی متبادل ڈسپوٹ ریزالوشن کے آپشن ہونے چاہئیں، اس میں سب سے زیادہ دنیا میں مشہور ثالثی ہے، ہمارا وژن ہےکہ پاکستان کے 138 اضلاع میں ثالثی سینٹر قائم ہوں گے، لوگوں کو بتایا جائےگا کہ آپ کے لیے ضروری نہیں کہ مقدمہ لڑیں، فریق کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کرسکتے ہیں، ایک دفعہ پنجاب میں اس کا تجربہ کیا تو 30 سے 40 فیصدکیس ثالثی سینٹرز منتقل ہوگئے تھے، دنیا میں 90 فیصد کیسز ثالثی سینٹرز میں جاتے ہیں، 10 فیصد کورٹس میں جاتے ہیں،ہمیں ثالثی نظام کی طرف آنا پڑےگا، وزیر قانون اور بار ایسوسی ایشنز کو اس کی حمایت کرنی پڑے گی، آپ کی حمایت کے بغیر اسے نہیں لایا جاسکتا، کچھ وکلا حضرات اگریہ سمجھتےہیں کہ ہماری تو پریکٹس بیٹھ جائےگی، ثالثی میں، ہمیں تو اسٹے لینا ہوتا ہے۔ آپ جو دس سال ایک کیس چلاتے ہیں تو ایک دن میں کیس ختم کریں اور اگلا کیس لے لیں ثالثی کا، اس میں آپ کے لیے بھی فائدہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ میں روزانہ 4 ہزار کیسز آرہے ہیں، ماتحت عدلیہ میں روزانہ 70 ہزار کیسز فائل ہو رہےہیں، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، اسی لیے کیسز حل نہیں ہو رہے، میں چاہتا ہوں حکومت اس معاملے پر مجھے سپورٹ کرے، پورےپاکستان میں 4 ہزار جج ہیں، 3 ہزار کام کر رہےہیں، پاکستان کے 138 ضلعوں میں ثالثی سسٹم قائم ہوں گے۔

عالمی معیار کے مطابق پاکستان کو 21 ہزار جج درکار ہیں: جسٹس منصور

پاکستان کی آبادی 231 ملین ہے اور اس تناسب سے فی ملین 13 جج ہیں ، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90 جج ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90 جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو 21 ہزار جج درکار ہیں، ورلڈبینک کی رپورٹ ہےکہ کیسز کے فیصلوں میں 80 فیصد تاخیر التوا کی وجہ سے ہے، یہ بار ایسوسی ایشن کو بھی سوچنا ہے، جس طرح ہمارے ہاں تسلسل نہیں، آپ کے ہاں بھی تسلسل نہیں، ایک صدر بات کرکے جاتا ہے دوسرا صدر آکر کہتا ہےمیں نے تو کہا ہی نہیں یہ، اس طرح ادارہ نہیں چل سکتا، سوچنا ہے کہ ملتوی کیسز کا کیا کرنا ہے، پاکستان میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے،کرکٹ میچ ہار گئے تو اسٹرائیک ہوجائےگی ، لوگ بکریاں بھینس بیچ کر عدالتوں میں آتے ہیں۔

جسٹس منصور نے تقریر کے اختتام پر فیض احمد فیض کا یہ شعر بھی پڑھا۔۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے ؟؟

منصف ہوتو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے۔۔۔

مزید خبریں :