20 ستمبر ، 2024
جب بھی آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو وہ اکثر منہ کھولنے کا کہتا ہے تاکہ گلے کا معائنہ کرسکیں۔
مگر ایسا کرتے ہوئے وہ آپ کی زبان کو بھی چیک کرتا ہے جس سے صحت کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہوتا ہے۔
ڈاکٹر زبان کی سطح پر کسی بھی طرح کی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں تاکہ مجموعی صحت اور مدافعتی نطام کے بارے میں معلوم ہوسکے۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے روزانہ 2 بار زبان کی صفائی کا مشورہ دیا جاتا ہے جس سے سانس کی بو سے نجات پانے سے مدد ملتی ہے۔
سانس کی بو کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں اور 80 سے 85 فیصد کیسز میں اس کی وجہ منہ میں موجود بیکٹریا ہوتے ہیں۔
مگر لوگوں کی ایک بہت عام غلطی بھی سانس کی بو کے مسئلے کا باعث بنتی ہے۔
عام طور پر زبان، دانتوں اور مسورڑوں پر غذا کے ذرات کا اجتماع سانس کی بو سے متاثر ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
یہ ذرات جب سڑ جاتے ہیں تو ناخوشگوار بو سانس سے خارج ہونے لگتی ہے۔
اس کا علاج تو دانتوں کے برش اور خلال کو یقینی بنانا ہے مگر ایک غلطی جو لوگ کرتے ہیں وہ زبان کی جانب توجہ مرکوز نہ کرنا ہے۔
مخصوص بیکٹریا زبان پر موجود ہوتے ہیں جو خوراک کے ذرات کے ساتھ مل کر سانس میں بو کا باعث بنتے ہیں۔
برش کے ریشوں کے پیچھے موجود حصے کو زبان پر پھیرنے سے وہاں اکٹھے ہوجانے والے بیکٹریا کی صفائی ہوتی ہے۔
اس سے سانس کی بو کے مسئلے کی روک تھام آسان ہوجاتی ہے۔
آسان الفاظ میں اگر آپ کو اکثر سانس میں بو کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو دانتوں پر برش کے ساتھ ساتھ زبان کی صفائی کو معمول بنانے سے اس کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے۔
زبان کی صفائی کے لیے 10 سے 15 سیکنڈز درکار ہوتے ہیں اور اسے آسانی سے دانتوں کی صفائی کے معمول کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے زبان کو عام ٹوتھ برش سے نرمی سے رگڑیں تاکہ اس کی سطح پر چپکے خوراک کے تمام ذرات نکل جایں اور وہاں بیکٹریا کا اجتماع نہ ہوسکے۔
زبان کی صفائی کے لیے بازار میں خصوصی tongue scraper بھی ملتے ہیں۔
زبان کی صفائی سے نہ صرف سانس کی بو سے نجات ملتی ہے بلکہ مسوڑوں کے امراض سمیت دیگر طبی پیچیدگیوں سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اگر آپ کی زبان پر سفید تہہ نظر آرہی ہے تو یہ کھانے کے ذرات اور جراثیموں کے اجتماع کا نتیجہ ہے۔
اس سفید کو تہہ کو زبان نرمی سے رگڑنے سے صاف کیا جاسکتا ہے۔
اگر زبان پر پیلی تہہ بن چکی ہے تو اس سے فنگل انفیکشن کا اشارہ ملتا ہے، اگر زبان سیاہ ہورہی ہے تو یہ تمباکو نوشی یا گہرے رنگ کی غذاؤں یا مشروبات کے استعمال کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔