Time 13 نومبر ، 2024
دنیا

بھارتی سپریم کورٹ نے 'بلڈوزر جسٹس' کے خلاف فیصلہ سنا دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے بلڈوزر جسٹس کے خلاف فیصلہ سنا دیا
انتظامیہ قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر کسی کو ملزم یا مجرم قرار دیکر اس کا گھر نہیں گرا سکتی، عدالت کا حکم 

بھارتی سپریم کورٹ  نے کسی بھی شخص پر  الزام لگنے یا جرم ثابت ہونے کے بعد اس کا گھر گرائے جانے کو  انسانی حقوق کے خلاف اور ماورائےقانون قرار دے دیا۔ 

بھارتی میڈیا کے مطابق جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے بلڈوزر جسٹس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے انتظامیہ کو قانونی عمل کی پیروی کے بغیر کسی کا گھر گرانے سے روک دیا۔ 

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہےکہ انتظامیہ کسی بھی گھر کو گرانے سے 15 دن قبل اس گھر کے لوگوں کو نوٹس دے گی اور انتظامیہ نوٹس میں گھر کی غیر قانونی تعمیر، مجوزہ قانون کی خلاف ورزی اور  گھر گرانے کی مخصوص وجہ بتائے گی۔ 

سپریم کورٹ نےکہا کہ انتظامیہ عدلیہ کا اختیار خود استعمال کرکے کسی کو مجرم قرار دے کر اس کا گھر نہیں گرا سکتی، گھر گرا کر لوگوں کو اجتماعی سزا دینا ٹھیک نہیں۔ 

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے جمیعت علماء ہند اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔ 

بلڈوزر جسٹس کیا ہے ؟

بھارت میں 'بلڈوزر جسٹس' کا لفظ سال 21-2020 میں ہونے والے کچھ واقعات کے بعد  سامنے آیا جب کچھ ریاستوں میں حکومتی زمین خالی کرانے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے  بلڈوزروں کے ذریعےگھر گرائے جانےلگے، زیادہ کیسز میں بھارتی مسلمان اس کا نشانہ بننے لگے۔ 

رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ 'بلڈوزر جسٹس' کے تحت کسی بھی شخص پر محض الزام لگا کر انتظامیہ کی جانب سے اس کا گھر گرادیا جاتا ہے اور انہیں بے گھر کردیا جاتا  ہے جب کہ جن ریاستوں میں محض الزام کی بنیاد پر گھر گرائے گئے ان میں سے اکثریت  میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ 

سال 2022 میں ریاست مدھیہ پردیش میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے بعد بہت سے مسلمانوں کے گھروں کو بغیر کوئی الزام ثابت ہوئے بلڈوزروں سے گرادیا گیا تھا۔ 

 اتر پردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کے وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد بلڈوزر جسٹس کے بہت سے واقعات سامنے آئے جن میں زیادہ تر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جب کہ یوگی ادتیہ ناتھ کو اس حوالے سے بلڈوزر بابا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔  

مزید خبریں :