24 جنوری ، 2025
دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اے 23 اے نامی یہ برفانی تودہ 1986 میں انٹار کٹیکا کے ساحلی علاقے سے الگ ہوکر بحیرہ ودل کی تہہ میں رک کر ایک برفانی جزیرے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
1500 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا یہ برفانی تودہ کراچی سے بھی کچھ بڑا ہے۔
خیال رہے کہ کراچی کا رقبہ 1360 اسکوائر میل ہے۔
مگر اب سائنسدانوں کی جانب سے اسے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ انٹار کٹیکا کے شمال میں سفر کرتے ہوئے ساؤتھ جارجیا آئی لینڈ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
برٹش انٹارکٹک سروے (بی اے ایس) کے اوشین گرافر اینڈریو مائیجرز نے بتایا کہ کئی ماہ تک زیرسمندر موجود چٹان میں پھنس کر گھومنے کے بعد یہ برفانی تودہ جنوبی اٹلانٹک اوشین میں برطانیہ کے زیرتحت ساؤتھ جارجیا جزیرے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ سمندری رو کے ساتھ بہہ رہ ہے اور براہ راست جزیرے کی جانب نہیں بڑھ رہا، مگر بحری رو کے بارے میں ہمارے علم سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ بہت جلد جزیرے کی جانب بڑھنے لگے گا۔
ساؤتھ جارجیا کے سرکاری بحری جہاز Pharos کے کپتان سائمن ویلس نے بتایا کہ اگر اے 23 اے موجودہ شکل میں برقرار رہتا ہے تو اسے ٹریک کرنا آسان ہوگا، مگر خطرہ یہ ہے کہ وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے اور ہزاروں ٹنوں وزنی چھوٹے برفانی تودے سمندر میں بہنا شروع ہوجائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونے پر ہمیں مسئلے کا سامنا ہوگا کیونکہ پھر ہمیں معلوم نہیں ہوگا کہ ان چھوٹے برفانی تودوں کا سامنا کہاں ہو سکتا ہے، تمام برف بہت خطرناک ثابت ہوگی، بڑا تودہ آسانی سے دریافت کیا جاسکتا ہے اور جہاز کو اس سے بچانا آسان ہوتا ہے مگر چھوٹے تودے مشکل سے پکڑ میں آتے ہیں مگر ان سے ٹکراؤ خطرناک ہوتا ہے۔
گنیز ورلڈ ریکارڈز کے مطابق مئی 2021 میں اے 76 نے دنیا کے سب سے بڑے برفانی تودے کا اعزاز اے 23 اے سے چھین لیا تھا۔
مگر اکتوبر 2022 میں اے 76 کے 3 حصوں میں تقسیم ہونے پر یہ ریکارڈ پھر اے 23 اے کے پاس چلا گیا۔
اس برفانی تودے کی برف کی موٹائی 400 میٹر ہے اور سائنسدانوں کی جانب سے اس کے سفر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے، کیونکہ اس سے خطے کی بحری حیات کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
1986 کے بعد برسوں تک یہ تودہ ایک جگہ رکا رہا مگر 2020 میں اپنی جگہ سے آگے بڑھ کر بتدریج South Orkney Islands تک پہنچ گیا۔
مگر پھر کئی مہینوں تک یہ برفانی تودہ ایک ہی جگہ پر سست روی سے گھومتا رہا اور دسمبر 2024 میںاس نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کیا تھا۔
پہلے بی اے ایس کے ماہرین کا خیال تھا کہ ساؤتھ جارجیا آئی لینڈ تک پہنچنے سے قبل یہ بتدریج پگھل جائے گا۔
مگر اب سیٹلائیٹ تصاویر سے عندیہ ملتا ہے کہ برفانی تودے نے اپنے اسٹرکچر کو برقرار رکھا ہوا ہے اور اب تک چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوا۔