09 فروری ، 2025
16 ویں کراچی لٹریچرفیسٹیول کا اختتام ہوگیا جس میں جدید دور کے تقاضے، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، عالمی منظرنامہ، فنون لطیفہ، سمیت اہم موضوعات پر تین روز تک مکالمے ہوئے۔
فیسٹیول میں 26 کتابوں کی رونمائی، 70سیشنزمیں 200 مقررین نے شرکت کی۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول (کے ایل ایف) اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ‘Narratives from the Soil’ کو عوامی آواز کے طور پر تسلیم اور فروغ دیا جائے۔
’اربن ڈائیلاگ: دی کراچی کچہری' کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں شہری مسائل کو مرکزیت حاصل رہی جس میں مرتضیٰ وہاب، منصور رضا اور بلال حسن نے کراچی کی گورننس اور انفرااسٹرکچر کے مسائل پر روشنی ڈالی۔
اس سیشن کی نظامت مہیم مہر نے کی۔
اہم قومی اور عالمی معاملات پر بصیرت انگیز گفتگو سامعین کی توجہ کا مرکز رہی۔ 'پاکستان بنگلا دیش تعلقات: ایک نیا آغاز' کے سیشن میں اکرام سہگل اور سلمیٰ ملک نے دونوں ممالک کے بدلتے ہوئے تعلقات پر گفتگو کی۔ ایک اور اہم مکالمہ، 'پاکستان کی آبادی: وقت کا بم یا فائدہ؟' میں ماہرین عذرا فضل پیچوہو، لبنیٰ ناز، اور خالد مسعود نے شرکت کی۔
نعیم صادق کی نظامت میں اس پینل نے پاکستان کے آبادیاتی رجحانات کے باعث پیدا ہونے والے چیلنجز اور مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔
کاروبار میں پائیداری کے اہم مسئلے کے جائزے پر سیشن ہوا جس میں مارٹن ڈاسن، مایا عنایت اسماعیل اور قاسم علی شاہ نے شرکت کی۔
ایک اور اہم گفتگو، ‘کیا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے سیاسی مباحثے کے معیار کو نقصان پہنچایا؟’ میں ممتاز شخصیات اظہر عباس، عنبر رحیم شمسی، شہزاد غیاث شیخ، اور فیصل سبزواری نے جدید میڈیا اور اس کے سماجی اثرات پر ندیم فاروق پراچہ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔
معروف ناول نگار کامیلا شمسی نے ‘الفاظ کے ساتھ بنائی دنیا’ کے سیشن میں حسن زیدی کے ساتھ اپنی ادبی سفر پر گفتگو کی۔ حمید اختر اور طلعت حسین جیسی ادبی شخصیات کی وراثت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقدہ سیشن میں صبا حامد اور تزئین حسین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ٹیلی ویژن کے عروج اور فن و مقبولیت کے درمیان مسلسل کشمکش کا جائزہ ‘چھوٹی اسکرین کی بڑی فتوحات’ کے سیشن میں لیا گیا۔ اس مباحثے میں نورالہدیٰ شاہ، صبا حمید، ندیم بیگ اور سرمد کھوسٹ نے شرکت کی جبکہ اس کی میزبانی شائستہ لودھی نے کی۔
اردو ادب کے عظیم ہستیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے ادبی مکالمے ‘اردو کی تازہ بستیاں’ میں نامور شاعر اور ادیب افتخار عارف، حارث خلیق اور اشفاق حسین نے شرکت کی۔ شاعری کے شوقین افراد کے لیے ‘کچھ غزلیں، کچھ نظمیں’ بھی پیش کی گئیں۔ معظم علی خان نے اپنا کلام پیش کیا اور اس سیشن کی میزبان مایا خان تھیں جبکہ کراچی کے ادبی اور شعری ورثے کو ‘کراچی: کہانیاں اور نظمیں’ میں پیش کیا گیا، اس سیشن میں شہزاد، سجاد احمد اور افضل احمد نے شرکت کی۔
ماہرین نے ‘کال ٹو ایکشن: پاکستان میں تعلیمی اصلاحات’ کے سیشن میں ضروری اصلاحات پر گفتگو کی۔ اس مکالمے میں فرید پنجوانی، شاہد صدیقی، پرویز ہودبھائی، فیصل مشتاق اور مائرہ مراد خان نے شرکت کی جبکہ ’درس و تدریس میں نئے رجحانات’ کے عنوان سے ایک اور اہم سیشن منعقد ہوا جس میں انجم ہالائی، محمد علی شیخ، سلمیٰ عالم اور خدیجہ بختیار نے تعلیم اور اساتذہ کی تربیت کے مستقبل پر روشنی ڈالی۔
یوتھ پویلین میں دلچسپ اور تفریحی سیشنز کا انعقاد کیا گیا جن میں عاطف بدر کے ساتھ ‘تھیٹر فن اینڈ گیمز’، آمنہ غلام حسین کے ساتھ ‘مائنڈ ٹوِسٹرز: دی تھنکنگ زون’، عاطف بدر کے ساتھ ‘میوزک اینڈ ڈانس’، اور آنٹی تاشی کی ‘اسٹوری ٹائم’ شامل تھیں۔
کلاسیکی بچوں کے گیتوں کو ‘گیتوں کی محفل: سہیل رعنا کے مشہور گیت’ میں عاطف بدر کے ذریعے دوبارہ پیش کیا گیا۔ ایک دلچسپ تھیٹر پرفارمنس ‘ان فٹ حال ہے دنیا میرے آگے: گرپس تھیٹر’ خالد انعم اور ان کی ٹیم نے پیش کیا۔ نوجوان ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی ‘ینگ آتھرز اینڈ پوئٹس’ میں کی گئی۔
کے ایل ایف کی اختتامی تقریب میں سابق سینیٹر خوش بخت شجاعت اور صحافی مشعال حسین سمیت نمایاں مقررین نے شرکت کی۔ دن کا اختتام روایت کے مطابق استاد فرید ایاز اور استاد ابو محمد کی سحر انگیز قوالی کے ساتھ ہوا۔