پاکستان

ہم سزائے موت کی اپیل پر مہینوں سماعت کرتے ہیں، ملٹری کورٹ فیصلے پر آرمی چیف کو اپیل جاتی ہے تو کتنے وقت میں فیصلہ ہوتا ہے؟ جج آئینی بینچ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر آرمڈفورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھےکوئی جرم کرتا ہے تو کیا آرمی ایکٹ لگے گا؟ 

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران سزا یافتہ مجرم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے۔ 

سماعت میں سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں 2 مسائل ہیں، ایک آرٹیکل 175 کا مسئلہ ہے، جہاں تک بات بنیادی حقوق کی ہے تو دروازے بند نہیں ہوں گے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اگربنیادی حقوق دستیاب نا ہوں اورکسی ایکٹ کے ساتھ ملالیں توکیا حقوق متاثر ہوں گے؟ آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھےکوئی جرم کرتا ہے تو کیا آرمی ایکٹ لگے گا؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟ 

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے،کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے، قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔ 

سلمان اکرم نے کہا مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، پنجاب میں کوئی ملٹری اہلکار گھر میں پتنگ اڑاتا ہے تو ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا بلکہ اس پر بھی سویلین والا قانون لاگو ہو گا۔ 

جسٹس نعیم اختر نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بُرا نہ مانیے گا،  آپ کی سیاسی جماعت کے دورمیں آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، آپ کی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ میں بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی تھی، اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا میں اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھا، میں ہمیشہ اپوزیشن میں رہا ہوں۔

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا، اس پر جسٹس مظہر علی نے کہا  آرٹیکل ٹو ون ڈی کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ کیوں دیکھے؟سلمان اکرم نےجواب دیا لیگل فریم ورک تبدیل ہو جائے تو جوڈیشل ریویو کیا جاسکتا ہے، آرٹیکل آٹھ 3 کا استثنیٰ ٹو ون ڈی کے لیے دستیاب نہیں۔ 

جسٹس نعیم اختر نے ریمارکس دیے ٹو ون ڈی کےلیے 1967میں آرڈیننس لایا گیاجس کی ایک معیاد ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس معیاد ختم ہونے پر متروک ہوگیا ہو؟ سلمان اکرم راجہ نے  جواب دیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 سے موجود ہے اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت 1967 سے قبل ٹرائل ہوتے رہے ہیں۔ 

جسٹس مندوخیل نے کہا سول سروس میں کوئی شخص ایسا جرم کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکالا جاتا ہے، سول سروس میں سزا دینے کا اختیار موجود نہیں ہے، آرمڈفورسز میں ایک طرف نوکری سےنکالاجاتا ہے تو دوسری طرف سزا بھی دی جاتی ہے،  آپ کو بتانا پڑے گا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا کس پر ہے؟ 

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا اگر کوئی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو اس کا ٹرائل کہاں کریں گے؟ جسٹس حسن اظہر نے پوچھا کوئی شہری دشمن ملک کے ورغلانے  پر راز  انہیں دے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان اکرم نے جواب دیا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگاجس کا طریقہ کار موجود ہے۔ 

سلمان اکرم راجہ نے کہا میں آئین کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، توڑمروڑ کر دلائل نہیں دوں گا، دنیا میں ایساکہیں نہیں ہوتا کہ آئین بنیادی حقوق دے اورکوئی انگلی کےاشارے سےچھین لے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے ملزم چاہیے، اسے میرے حوالے کردو۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا 5 رکنی بینچ نےسیکشن ٹو ڈی ختم کردیا ہے، سیکشن ٹو ڈی ختم ہونےکے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگرسول ملازم کی آڑ میں دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ اس پر سلمان اکرم نے کہا  آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔ 

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ1967 میں پارلیمنٹ کے ذریعےسیکشن ٹو ون ڈی ٹو کی منظوری دی گئی تھی، سپریم کورٹ ایف بی علی کیس پرنظرثانی کیے بغیر آرمی ایکٹ کی شقوں کاجائزہ لےسکتی ہے، جسٹس مندوخیل نے کہا کیا ہم آئین کے پابند ہیں یا عدالتی فیصلے کے پابند ہیں، سلمان اکرم نے کہا سپریم کورٹ فیصلے کا احترام ہے،لیکن عدالت کیلئےضروری نہیں۔ 

سلمان اکرم راجہ نے کہا بند دروازوں کے پیچھے شفاف ٹرائل نہیں ہو سکتا، ہم ایک لکھی ہوئی تحریر کو فیئر ٹرائل کےلیے جواز بنارہے ہیں،  آپ مجھے 10سال سزا دے دیں اور کہیں آپ کو اپیل کا حق نہیں، کیس کوئی اور سنتا ہے فیصلہ کوئی اور جاری کرتا ہے، دنیا میں کورٹ مارشل کے لیے 2 ماڈلز اپنائے گئے ہیں اور ٹرائل کے لیے قابل ججز کو بھرتی کیا جاتا ہے۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا 103 لوگوں میں سے اعتراف کتنوں نے کیا ہے، سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا پاکستان میں سزا دینےکا ریٹ 95 فیصد ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتاکہ اعتراف کی بنیاد پر سزا ہو جائے، اعتراف کی بنیاد پر سزا ہمارا ہی انوکھا طریقہ ہے۔

جسٹس حسن اظہر نے ریمارکس دیے اگر ملزمان اعتراف نہیں کرتےتو انکار بھی تو نہیں کرتے، سلمان اکرم نے جواب دیا انکار کے پیچھے وجہ ہے، آپ اس میں سے خوف کو نہ نکالیں، دنیا میں پورا سسٹم بدل کر رکھ دیا گیاہے، اوپن ٹرائل کا تصور بھی موجود ہے، اس موقع پر جسٹس امین الدین نے کہا ہمارے سامنے جو معاملہ ہے ہم نے اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ 

سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے 19 ویں صدی والا کورٹ مارشل اب دنیامیں تبدیل ہوچکا ہے،  2025 میں 1860والےکورٹ مارشل کی کارروائی کا اطلاق یونیفارم پرسنل پربھی نہیں ہوسکتا، پتہ نہیں 2 سال تک کیا ہوتا رہا، ایک کاغذ تک باہر لیکر جانے کی اجازت نہیں تھی، ضمانت کا حق بھی حاصل نہیں۔  

سلمان راجہ نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے بعد صرف یہ لکھا جاتا ہے ملزم قصور وار ہے یا بے قصور ہے، اس پر جسٹس مسرت نے ریمارکس دیے ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، ہم ایسے ہی ساری ساری رات بیٹھے رہتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہم سزائے موت کی اپیل پر مہینوں سماعت کرتے ہیں، جب ملٹری کورٹ فیصلے پر آرمی چیف کو اپیل جاتی ہےتوکتنےوقت میں فیصلہ ہوتاہے؟ اس پر سلمان اکرم نے جواب دیا چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔ 

اعتزاز احسن نے کہا جسٹس وقار سیٹھ کا فیصلہ موجود ہے، 159 ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ ملزمان کا ٹرائل کالعدم قرار دیا گیا تھا کیونکہ تمام ملزمان کا اعترافی بیان ایک جیسا ہی تھا، اس موقع پر جسٹس امین الدین نے کہا جو کیس ہمارے سامنے نہیں اس پر بات نہ کریں۔ 

وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیے ایف بی علی کیس میں ایازسپرا اور میجراشتیاق آصف کا وکیل رہا، اس وقت ٹرائل اٹک جیل میں ہوتا تھا اور ٹرائل کے بعد ریکارڈ جلادیا جاتاتھا، جب ٹرائل ختم ہوتا تو ہماری اٹک قلعے سے نکلتے وقت مکمل تلاشی لی جاتی تھی، ایک کاغذ تک نہیں لیکر جانے دیا جاتا تھا۔ 

بعد ازاں سپریم کورٹ نے سیویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔ 

مزید خبریں :