پاکستان
25 جنوری ، 2014

آزاد کشمیر: اکیسویں صدی میں غارمیں زندگی بسر کرنے والاخاندان

آزاد کشمیر: اکیسویں صدی میں غارمیں زندگی بسر کرنے والاخاندان

سہنسہ ، آزاد کشمیر…جس گھرانے کو حکومت نے کوئی چھت نہ دی ،ایک غار نے زندگی کی بہاریں بخش دیں ، اکیسویں صدی میں آزادکشمیر کاایک خاندان غارمیں زندگی بسر کررہا ہے۔آزاد کشمیر کی تحصیل سہنسہ کے گاوٴں چھتراں میں دور تک پھیلی اس سیاہ و سنگلاخ چٹان تلے اک ایسا گھر آباد ہے جو سادہ و غریب ہو کربھی دلکش اور خوش حال ہے۔ ستر سالہ محمد رشید کے والدین جب تقسیم کے بعدمقبوضہ کشمیرسے یہاں آئے تو سرچھپانے کوجگہ نہ ملی۔ ایسے میں ان کاٹھکانہ بنی چٹان کی تہہ میں موجودیہ قدرتی غار۔دو انسانی نسلوں کو اپنی آغوش میں پناہ دینے والا یہ محراب نما غار وقت کے ساتھ بنتا سنورتا رہا۔آج یہ گھر چار کمروں میں منقسم ہے۔چٹان کے نیچے دور تک پھیلا آنگن مٹی کی لپائی اور پتھروں کے استعمال سے مزین ہے۔گھر کو راستہ ایک پتلی پگڈنڈی سے آتا ہے جو اسکول جانے والی آٹھ سالہ بیٹی ملائکہ کی راہ گزر ہے۔عام استعمال کا کمرہ، living rood اور باورچی خانہ سب ایک جگہ ہیں۔ لذیز کھانے کی مہک نہ صرف اندر بلکہ باہر کے ماحول کو بھی مدہوش کر رہی ہے۔مہمانوں کیلئے چارپائیاں اور سحر انگیز نظارے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے ہیں۔ ترچھی ، پتھریلی اور نوکیلی چھت تلے سنگت و خشت کے اس دیار میں محمد رشید نے پچپن سے جوانی تک کی بہاریں گزاریں۔یہیں اس کے 9 بچوں نے میٹرک، ایف اے اور بی اے تک علم کے ساماں کیے۔ خودداری کی بلندیوں سے ابھرتے قناعتوں کے سورج ہی اس بارگاہ صبر و شکر کی متاع تما م ہیں۔چار سال کی عمر میں مقبوضہ کشمیر سے یہاں آنے والے محمد رشید کو تو پاکستان میں کوئی چھت نہ ملی لیکن وہ مطمئن ہے کہ قدرت کی عطا کردہ چھت اس نے زندگی کی ساری ر عنائیاں پا لیں۔
رہئیے ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم نوا کوئی نہ ہو ،ہم سخن کوئی نہ ہو

مزید خبریں :