02 فروری ، 2014
ڈیلس …راجہ زاہد اختر خانزادہ/ نمائندہ خصوصی… پاکستان کے معروف اسکالر اور اقوام متحدہ کے ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کمشن کے رکن پرویز ہود بھائی نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ پورا معاشرہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف اُٹھ کھڑاہو۔ ڈیلس کی ایس ایم یو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے زیراہتمام خطے میں اقلیتوں کے استحصال پر ہونے والی ایک روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرویز ہود بھائی نے کہاکہ اسلامی ممالک کو مغرب نہیں بلکہ اندرونی خلفشار اور تشدد سے خطرہ ہے اور اس تشدد اور استحصال کے خلاف عام افراد ایک ہو کر جدوجہد کریں تو امن و سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قبل ازیں ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے صدر ڈاکٹر قیصر عباس نے حاضرین کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں کے خلاف تشدد خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے چنانچہ امداد فراہم کرنے والے ممالک اور تارکین وطن کو چاہئے کہ ہو امداد کو اقلیتوں کے تحفظ سے مشروط کریں۔ صدرن متھڈس یونیورسٹی شعبہ انسانی حقوق کے سربراہ رک ہیلپرن نے واضح کیا کہ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرے کے پسماندہ افراد اور طبقات کا تحفظ کرے۔ انہوں نے کانفرنس کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ درپیش مسائل کو اُجاگر کرنا آسان نہیں ہے۔ کانفرنس کے چار سیشن میں اقلیتوں کے خلاف تشدد کے مختلف پہلوؤں پر مقامی اور بیرون ملک سے آئے ہوئے ماہرین نے روشنی ڈالی جن میں ڈاکٹر حسنین والمی‘ کرشانی دھرما راج‘ ڈاکٹر رگو سنگھ‘ علاؤ الدین ہمدم خانزادہ‘ سید اظہر حسین‘ آفتاب صدیقی‘پیٹر بھٹی‘ امجد محمود خان اور دیگر شامل تھے۔ ٹیکساس میں پاکستانی نژاد میئر ڈاکٹر ارجمند ہاشمی‘ آصف آفندی‘ توصیف کمال‘ ڈاکٹر پرت پال سنگھ‘ ڈاکٹر بشیر احمد اور راجہ زاہد اختر خانزادہ نے مختلف سیشنز کی صدارت کی۔ بیرون ملک سے آئے ہوئے اسکالرز کو ساؤتھ ایشیا ڈیموکریسی واچ کے اراکین سید فیاض حسن‘ امیر مکھانی‘ سراج بٹ نے یادگاری نشان پیش کئے۔ تقریب میں پاکستان سے آئے ہوئے سینئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے سابق سیکرٹری علاؤ الدین خانزادہ نے کانفرنس میں شریک مقررین کو سندھ کا روایتی اجرک کا تحفہ بھی پیش کیا۔ اقلیتوں کے خلاف تشدد کے عنوان سے اس ایک روزہ کانفرنس کا اہتمام کئی یونیورسٹیوں اور تنظیموں نے کیا تھا جن میں ڈیلس پیس سینٹر‘ سکھ کمیونٹی‘ علم سینٹر‘ مسجد بیت المکرم اور دیگر تنظیمیں بھی شامل تھیں۔