02 اکتوبر ، 2014
کراچی.......رفیق مانگٹ.......خلیجی اخبار دی نیشنل کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں بند کئی پاکستانی خواتین قیدی حکومت پاکستان کی مدد کی منتظر ہیں، جو اپنی بقیہ سزا اپنے وطن میں بھگتنے کو تیار ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ 2012میں ہوا لیکن آج تک اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایک پاکستانی تنظیم نے اپنی حکومت سے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں مقید پاکستانی خواتین کو پاکستان لانے کا انتظام کیا جائے اور انہیں بقیہ سزا پاکستان میں پوری کرنے دی جائے۔ اس سلسلے میں کراچی کی صارم ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک انسانی حقوق کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے منیجر محمدعدنان خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات حکومتوں کے درمیان معاہدے کے مطابق نو پاکستانی قیدیوں نے انہیں پاکستان میں منتقلی کے لئے مدد کے لئے کہا ہے۔ ایک خاتون کی طرف سے تنظیم کو خط لکھا گیا تھا جس میں درخواست کی گئی کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی قیدی خواتین پاکستان میں اپنی بقیہ سزا پوری کرنے کو تیار ہیں، اس سلسلے میں حکومت ان کی مدد کرے۔ جن پاکستانی قیدی خواتین نے درخواست کی ان میں 55سالہ شمیم اختر، 40سالہ فاشولہ روحی کو 25سال قید کی سزا ہوئی، 30سالہ نازیہ جہانگیر، 20سالہ طیبہ رانی، 34سالہ عاصمہ غلام، 42سالہ ساجدہ فرزند اور 75سالہ برکت بی بی کو 15،15سال کی قید ہوئی جبکہ 45سالہ سلمیٰ بی بی کو 10سال کی قید کی سزا ہوئی ہے۔ ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے فروری 2012میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر دستخط کیے، لیکن اس وقت سے حکومت پاکستان کی طرف سے خصوصاً خواتین قیدیوں کے تبادلے پر کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ ٹرسٹ نے اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارت خانے سے کئی بار رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں تقریباً 15سو پاکستانی قیدی موجود ہیں۔