10 نومبر ، 2014
کراچی........کسی شریف آدمی کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی عزت ہوتی ہے، اگر وہ ہی چھین لی جائے تو اسکی گویا کل کائنات ہی چھن جاتی ہے۔ ایسی ہی کہانی گلستان جوہر کےایک ریٹائرڈ بنک ملازم کی بھی ہے جس پر لینڈ مافیا سے ٹکرلینے کےبعد منشیات، موٹرسائیکل لفٹنگ اور ڈکیتی کے مقدمات قائم کردیے گئے جو تحقیقات میں جھوٹے ثابت ہوئے۔ نم آنکھیں اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس اس باریش شخصیت کا نام ہے عبدالحلیم جو گلستان جوہر بلاک 8کا رہائشی ہے، بزرگ شہری کے مطابق وہ بنک کا ریٹائرڈ ملازم ہے اور اس نے اپنی جمع پونجی سے گلستان جوہر میں ایک پلاٹ خریدا تو لینڈ مافیا کی جانب سےرقم کا مطالبہ کیا گیا جس میں سے کچھ تو ادا کردیا گیا تاہم مزید دینے سے انکار کے بعدپولیس کے ذریعے ان پر جینا حرام کردیا گیا۔ عبدالحلیم پر اس دوران گلستان جوہر، شارع فیصل اور شاہ فیصل کالونی تھانوں میں دھوکہ دہی، ڈکیتی، جان سے مارنے کی دھمکی، زخمی کرنے اور منشیات ایکٹ کے تحت6 مقدمات درج کیے گئےتھے۔ عبدالحلیم اوران کے دو بیٹوں کو گرفتار کرکےجھوٹا دعویٰ کیا گیاکہ ان سےڈیڑھ کلوگرام چرس برآمد کی گئی ہے تاہم دعوے کے برعکس منشیات عدالت میں توپیش نہ کی جاسکی لیکن مقدمہ درج کر کے بچوں کا مستقبل تباہ کردیا گیا۔ درج مقدمات میں ایک مقدمہ ڈکیتی یا چوری کرنے کا بھی تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ عبدالحلیم نے 40ٹن سریا منی ٹرک میں رکھ کر چوری یا چھین لیا۔ ان تمام حالات نے عبدالحلیم کی باپردہ اہلیہ جنہوں نے انتہائی ضرورت کے باوجود کبھی گھر کی دہلیز پار نہیں کی، وردی والوں نے انہیں بھی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا۔ یہ معاملہ پہنچا سی پی ایل سی ضلع ایسٹ کے چیف شوکت سلیمان کے پاس جنہوں نے یہ معاملہ ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ کے سامنے اٹھایا اور پھر تحقیقات کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی پانی کا ہوگیا۔ ایک مقدمہ تو جھوٹا ثابت ہو گیا تاہم عبدالحلیم اور ان کے بیٹے فواد پر درج کیے گئے 5مقدمات تلوار کی طرح اب بھی لٹک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ واقعی کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں نشان عبرت بنادیا جائےورنہ طاقت اور وردی کے زور پر جھوٹ کا بازار گرم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، ان پولیس اہلکاروں کو جنہوں نے وردی کے نام پر اپنے ضمیر کی لاش پر کفن اوڑھ لیا ہے۔