بلاگ
09 دسمبر ، 2016

اور پھر ایک اور جہاز کریش ہوگیا.....

اور پھر ایک اور جہاز کریش ہوگیا.....

 

شائرین اسلم...میرا یہ ہمیشہ کا مسئلہ رہا ہے کہ میں بہت اچھی ریڈر رہی ہوں ،رائٹر نہیں ،ہزار دفعہ قلم اٹھانا چاہالیکن کبھی لفظ جوڑ نہ سکی۔لٹریچر کےاسٹوڈنٹس کا شاید یہ المیہ ہی رہا ہے کہ وہ اچھی چیزیں پڑھنے میں تیز ہوتے ہیں لیکن جب کبھی لکھنے کا سوچیں تو الفاظ ذہن سے قلم تک منتقل نہیں ہوپاتے ۔

لیکن آج پہلی بار الفاظ شاید خود ہی ذہن میں آتے چلے جارہے ہیں ۔۔میرے ہاتھ کی بورڈ پر چلتے جارہے ہیں۔۔۔

پی آئی اے کا طیارہ پی کے 661 چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے کریش ہوگیا ۔۔۔۔صرف اس ایک بریکنگ ٹکر نے مجھے 28 جولائی 2010 کی صبح یاد دلادی جب ہم سات دوستوں نےاپنا ایک دوست کھودیاتھا۔

منیزہ کی ایک کال نے دل اور دماغ کی دنیا ہی ہلادی ۔اس نے کیا کہا میں نے کیا سنا۔۔کچھ نہیں پتہ ۔یاد رہا تو بس اتنا ۔۔شائرین معلوم کرو ائیربلیو کا جہاز اسلام آباد میں کریش ہوا ہے۔۔۔عائشہ اپنے شوہر کے ساتھ اس فلائٹ میں تھی۔معلوم کرو ۔۔۔

نیوزڈیسک پر کال کی تو پتہ لگا کہ بدقسمت جہاز 155 لوگوں کو لے کر مارگلہ کی پہاڑیوں میں اتر گیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد ،،عائشہ کے بھائی کی کال نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ عائشہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔جسے چند ہی روز پہلے ہم نے دلہن بنا کر رخصت کیا تھا۔۔

حادثے سے لے کراس کی میت کراچی لانے تک کا ایک ایک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔مارگلہ کی پہاڑیوں پر لاشیں کیا تھیں چیتھڑے تھے جنہیں بوریوں میں پمز پہنچایا گیا تھا۔

اب یہی منظر مجھے حویلیاں کریش میں نظر آیا ،بوریوں میں بند وہ ٹکڑے تھے جو یقیناً چند لمحے پہلےانسانی جسم کی صورت میں کھل کھلارہے تھے۔

اس وقت عائشہ بھی نہیں ملی تھی۔۔ہاںاس کے کچھ اعضا بھائی اور والد کراچی لےکر ضرور آگئے۔

دوسرے روز یہ کراچی پہنچنے والی پہلی باڈی تھی۔کس طرح اسے دفنایا وہ ایک الگ کہانی ہے ۔

6 سال بعد ایک بار پھریہی نظارہ میرے سامنے ہے۔ 47 بے بس افرادجن میں جنید جمشید کے بھی کچھ بچے کھچے ،جلے ، ٹکڑے بوریوں میں بند ہیں۔ڈی این اے ٹیسٹ سے ان ناقابل شناخت ٹکروں کو شاید شناخت تو مل جائے لیکن ایک لمحے کو تصور کیجئے اس خاندان کاجس نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ چترال سے آنے والی فلائٹ کبھی واپس نہیں آئے گی۔

مجھے نہیں معلوم کہ آخری لمحات میں جہاز کے اندر کیا ہورہا ہوگا۔شاید جنید جمشید ہمیشہ کی طرح اللہ اور اس کے رسول کو یاد کررہا ہوگا، شاید ،پائلٹ جنجوعہ یہ سوچ رہے ہوں کہ جہاز میں ایسا کیا ایشو ہوگیا کہ منزل اب موت ہے،شایدائیرہوسٹس اسماء اپنے بچوں کو یاد کررہی ہوگی ۔۔شاید کراچی یونیورسٹی کا پاس آؤٹ احترام الحق خود کنوکیشن میں شرکت کی خواہش دل میں لئے ہی آخری بار کلمہ پڑھ رہا ہو ،شاید کسی نے والیٹ میں لگی وہ تصویر دیکھی ہو جس سے اب کبھی ملنا نصیب نہ ہوگا۔

کتنے مستقبل کے پلانز ،کتنی خواہشات ،کتنے ہی گولز ،حویلیاں کی پہاڑیوں میں جاکر دفن ہوگئے ۔

چترال کا یہ حادثہ مجھ جیسے ہر اس شخص کےلئے ہمیشہ نہ بھلانے والا رہے گاجو ٹین ایج میں جنید جمشید کی آواز کا فین رہا اورآج کل ان کی آواز میں حمد و ثنا اور ان کی اچھی اچھی باتوں کا دلداہ رہا ہو۔

اس حادثے کی یہ شام واقعی پھر کبھی نہیں آئے گی۔۔ایسی امر ہوئی کہ مدتوں یاد رہے گی۔شاید اس فلائٹ میں کسی نے اپنا اعتبار بھی کھو دیا،شاید کسی نے اپنا یار بھی کھو دیا ہو، باتیں ،پرانی باتیں یاد آئیں گی تو کھونا ہی پڑے گا،وہ کہہ گیا تھا کہ مربھی جاؤں تو مت رونا ،،بیتی ہوئی باتوں کو جاگی ہوئی راتوں کو یاد کرنا اور جی لینا۔۔۔کیوں کہ ’’جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے۔۔۔’جیسے نبی کی چوکھٹ بلارہی ہو‘اسے کون روک سکتا ہے۔۔اس کا نصیب بلندی پر چلا گیا ہے۔

طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے والے سب افراد شہادت کا رتبہ پاچکے۔گو کہ شہیدوں کےلئے رویا نہیں جاتالیکن جو بے چین اور بے قرار لوگ اپنے پیچھے یہ سب چھوڑ گئے ان کی غم گساری کسی طور ممکن نہیں۔۔

دنیا میں ایوی ایشن سب سے محفوظ تصور کی جاتی ہےلیکن پاکستان شاید اس لحاظ سے بھی بدقسمت رہا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو جہاز کریش کے علاوہ زلزلہ ، خودکش حملوں ،ٹارگٹ کلنگز،قاتل ہیٹ اسٹروک سے بھی کھوتے ہی آئے ہیں لیکن یہ سب کیوں ہوتا ہے ،کیسے ہوتا ہے ،کس کی ذمے داری ہے ؟؟؟؟اس کا جواب آج تک نہ مل سکا۔

تصویریں دھندلی پڑجاتی ہیں لیکن یادیں نہیں۔ پیارے چھوڑ جاتے ہیں لیکن ان کی پرچھائیاں ایک ایک قدم پر ہمارے ساتھ ہوتی ہیں،جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن ان سے جڑے لوگوں کی زندگی ،جدائی کے غم میں ہی الجھ کر ہی رہ جاتی ہے۔

ہمت جواب دے گئی ہے ۔۔۔الفاظ شاید اب آنکھوں سے پانی کی طرح بہہ رہے ہیں اور مجھ دور سے صرف یہی سنائی دے رہا ہے ،
کیا ہوا
اگر ، زندگی ذرا الجھ سی گئی ،سوچو تو ذرا۔۔۔
جنگلوں میں بھی راستے تو ہیں ،ہمیں بھی کوئی مل ہی جائےگا
چلو تو سہی ، چلو تو سہی ،
اور پھر وہ سب کے سب جنگلوں اور پہاڑوں سے مل کر ،ہواؤں سے ہی آسمانوں پر چلے گئے ۔۔۔پھر ایک جہاز کریش جو ہوگیا۔۔۔