ہنوز دہلی دور است کی رٹ اور ٹرمپی ورلڈ آرڈر

آخر وہ خطرہ ہمارے دروازے پر آ پہنچا جس کے لیے امریکا، بھارت، اسرائیل اور افغانستان نے شطرنج کے مہروں کی طرح ہمارے عاقبت نا اندیش دانشوروں، سیاسی بونوں اور ابلاغی ماہرین کو استعمال کیا۔

امریکی صدر نے خطاب کے بعد میرے طالب علموں اور قریبی دوستوں نے مجھے ایک عام انسان ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ سر آپ نے جو کچھ اپنے کالموں، بلاگز اور لیکچرز میں کہا وہی ہو رہا ہے،اب میں انہیں کیا بتاتا کہ تاریخ کا علم انسان کے ذہن کے ان دریچوں کو کھول دیتا ہے جن تک عام علمی ذہن کی پہنچ نہیں ہوتی، تاریخ سے ہمیں صرف سبق ہی  ملتا ہے، نہ میں کوئی نجومی ہوں، نہ ہی کوئی مؤکل میرے پاس ہیں، عام سا آدمی ہوں، 22 سال صحافت کی وادی پرخار میں گزرے لیکن تاریخ سے عشق رہا، پوسٹ گریجوایشن ابلاغ عامہ میں کی لیکن ڈاکٹریٹ کےلیے تاریخ کا ہی انتخاب کیا کیونکہ عشق منطق نہیں دیکھتا۔

نادر شاہ لٹیرا ایران سے چلا پوری سلطنت مغلیہ کو روندتا ہوا دہلی تک آ پہنچا تھا لیکن مغل شہنشاہ محمد شاہ فرما رہے تھے کہ ہنوز دہلی دور است، یعنی دہلی ابھی دور ہے،ایک سبق بغداد پر ہلاکو خان کے حملے کے وقت بغداد کے لوگوں کی باتوں، فقہی مسائل اور تعصبات سے بھری تاریخ سے بھی ہمیں ملتا ہے۔

سن1492ء میں جب مسلم اندلس کا آخری سلطان ابو عبدللہ روتے ہوئے قصر الحمرا کو دیکھ رہا تھا اور اس کی ماں نے جو تاریخی الفاظ کہے وہ بھی ہمارے لیے سبق ہے،مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی ایک بہت بڑا سبق ہی تھا، افسوس ہم نےکچھ نہ سیکھا، پاکستان کے موجودہ حالات پر ذرا ایک نظر ڈالیں، منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ ایک صوبہ دوسرے صوبے کی امداد لینے سے انکاری رہا، گویا کہ وہ صوبہ پاکستان کا نہیں بلکہ اسرائیل کا ہے،فرقہ واریت کا عروج ہے، ہر دوسرے کو کافر کہہ دینا ایک فیشن ہے، لسانی مسائل الگ ہیں، اپنے سطحی مفادات کے لیے سی پیک کے خلاف بول رہے ہیں۔

امریکی صدر کے خطاب کے بعد گویا لرزا طاری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر رہے، میں نے کہا تھا کہ جب دشمن دروازے پر کھڑا ہو تو کیا ہم گھر والے اس بات پر لڑیں گے کہ کس نے زیادہ کھا لیا ہے اور کسی نےکم یا ایک مشترکہ حکمت عملی بنائیں گے، ہم ان کتوں کی طرح لڑتے رہے جن کے آگے کسی نے ہڈی ڈال کر گھر لوٹ لیا،افسوس احساس زیاں جاتا رہا، پوری قوم تقسیم کر دی گئی،صوبائی، لسانی اور مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی۔

امریکا کی ایک پیرا سائٹ اسٹیٹ پاناما سے گیم کا آغاز ہوا جس کا ہدف پاکستان اور چین تھے، سی پیک امریکا کو کانٹےکی طرح کھٹک رہا تھا، اب بھارت اور امریکا کا ہدف ایک ہی تھاچین اور چین سے ہمالیہ سے بھی بلند دوستی کا دعویدار پاکستان۔

میرے ایک سال کے تمام کالم اور بلاگز جس میں سیاسی تجزیہ کیا گیا ان میں ٹرمپی ورلڈ آرڈر کا میں نے بار بار ذکر کیا،میں نے کہا کہ اب ایک نیا امریکا ہے اور اب ٹرمپ اپنی ٹرمپیوں کے ذریعے اس دنیا پر حکومت کرے گا،میں نے یہ بھی کہا کہ اب ایک نئی دنیا ہے اور نئے فیصلے ہوں گے،یہ بھی کہا کہ امریکا کی اصل دشمنی چین کے ساتھ ہے ٹرمپ کا ساؤتھ چائینا سی کے حوالے سے ٹویٹ کا بھی حوالہ ذہن میں رکھیں،میں نے یہ کہا کہ یہ خطہ تیسری ایٹمی جنگ کا مرکز ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر نے کہا ہے کہ پاکستان اگر سلامتی چاہتا ہے تو افغانستان میں ساتھ دے، نئی امریکی پالیسی میں بھارت امریکا کا دوست اور پاکستان صرف چین کا دوست ہے، امریکی صدر کی للکار سے ہم تو سکتے میں رہے البتہ عظیم دوست چین نے ڈنکے کی چوٹ پر جواب دیا اور پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کیا، ہم کیوں نہیں بول پائے کیونکہ ہم ایک پیج پر نہیں ہیں، میڈیا صرف پراکسی گیم کھیل رہا ہے، مقتدر پالیسی ساز اب بھی سمجھ جائیں کہ ایک رہنے اور ایک ہونے ہی میں بھلائی ہے، پاکستان ہے تو فوج ہے، ایٹم بم ہیں، اسلحہ ہے، پارلیمنٹ ہے، عدلیہ ہے، انتظامیہ ہے، صوبے ہیں، زبانیں ہیں،تاریخ منافقوں بے شرموں اور غداروں کو کبھی معاف نہیں کیا کرتی۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔