بلاگ
Time 16 اکتوبر ، 2017

سب منصفوں سے اوپر۔۔۔

تاریخ کا سیاہ ورقہ پلٹا جا چکا ہے۔ آزمائشوں اور مشکلوں کا وقت تمام ہوا، نئی صبح تازہ امکانات کا سندیسہ لائی ہے۔

وطن عزیز میں ان دنوں انصاف کی گنگا درست سمت میں بہہ رہی ہے۔ سستا اور فوری انصاف سب کے لیے میسر ہے۔ ہرطرف ’’انصاف لے لو انصاف لے لو‘‘ کی صدائیں ہیں جو گزشتہ 70 سالوں کی محرومیوں کا ازالہ کر رہی ہیں۔ سیاستدانوں کے کرپشن سے اٹے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں اور یوں ہر پاکستانی کی طرح میری دلی کیفیت میں بھی عجب سی سرشاری ہے۔

اس بار’’کرپشن فری‘‘ پاکستان کی ذمہ داری جنہوں نے اٹھائی ہے وہ بہت محب وطن ہیں۔ سیاستدانوں کی کالک صاف کرنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔ کوئی وزیر ہو یا مشیر، وزیراعلیٰ ہو یا وزیراعظم، کرپشن کرے اور بھاگ جائے، اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ کچھ ان دیکھی نظریں ان کے تعاقب میں رہتی ہیں اور وقت آنے پر سب کچھ واشگاف کردیتی ہیں۔ ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹتی ہے تو سیاستدانوں کی اصل اوقات سامنے آجاتی ہے۔

اسلام آباد کا رہائشی مظہر حسین آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا اور چیخ چیخ کراپنی فریاد سنانے لگا، کیسے اس نے قتل کے جھوٹے مقدمے کا سامنا کیا اور انصاف حاصل نہ کر سکا۔

اب ہمارے عدالتی نظام کی اکھڑتی سانسیں بھی مکمل طور پر بحال ہو چکی ہیں، تاریخ پر تاریخ ، تاریخ پر تاریخ کا مکالمہ اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ وکیل منٹوں میں رٹ تیار کرتا ہے، گھنٹوں میں کیس کی تاریخ لگتی ہے اور دنوں میں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ بھی مکمل انصاف کے ساتھ۔۔۔ یقین نہیں آتا تو سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کو یاد کرلیں۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی نے بتایا کہ ملک کا وزیراعظم کتنا کرپٹ ہے۔ دبئی میں اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازم ہے اور وہاں سے تنخواہ بٹورتا ہے۔ الزام لگنے کے ٹھیک 18 دن بعد انصاف ہو گیا اور منتخب وزیراعظم جی ٹی روڑ پر مجھے کیوں نکالا ، مجھے کیوں نکالا کی صدائیں بلند کرتا گھر چلا گیا۔

عام پاکستانی اسی بات پر خوش ہے کہ قانون کی اندھی گولی کا رخ بدل چکا ہے۔ اب انصاف صرف طاقتور کے گھر کی باندی نہیں رہا بلکہ صاحب اختیار کو بھی بے اختیار کر رہا ہے۔ اب ہمارے اپنے ہیروز ہیں۔ کوئی پاکستانی اب جوڈیشل سسٹم پر ہٹلر کا مقولہ یاد نہیں کرتا، جہانگیر کی "زنجیر عدل" بھی ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ نظریہ ضرورت دینے والے جسٹس (ر)منیر اور عدلیہ تحریک س بحال ہونے والے جسٹس (ر) افتخار چودھری بھی اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ یہی نہیں عوام کی ذہنی سطح بھی بہت بلند ہوئی ہے۔ اب یہاں کوئی مولوی تمیز الدین ہے نہ ظفر علی شاہ جو معزز عدلیہ کو قانونی الجھنوں میں الجھائے رکھیں۔ اب پانامہ اور اقامہ جیسے کیسز ہی ’’بددیانت سیاسی اشرافیہ‘‘ کو بے لباس کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اٹھائیس جولائی کے فیصلے سے طبعیت آج بھی شرسار تھی کہ نظر ایک پرانے اخباری تراشے پر پڑگئی۔ دل ہی دل میں بنایا ہوا خیالی’’سٹیچو آف جسٹس‘‘ اوندھے منہ زمین پر آگرا۔ اخبار میں لکھا تھا ’’99 سال بعد بھی کیس کا فیصلہ نہ ہو سکا، متاثرین نے سپریم کورٹ کے باہر کیک کاٹا‘‘۔

حیدرآباد کے میر امیر کا کیس تو بھلائے نہیں بھولتا۔ وہ 30 سال اپنی بیٹی سے ہونے والی زیادتی کا جواب عدالتوں سے مانگتا رہا، مگر بے سود

خبر پڑھ کر دل اور دماغ کی حالت ٹھکانے آگئی اور پھر وہ سارے کیسز جو میری یاداشت کا حصہ تھے الٹے پاؤں چلنے لگے۔ ملتان کا بوڑھا علم دین یاد آیا جو 60 سال عدالتوں کے دھکے کھاتا رہا مگر اس کی دوایکٹر زمین کا کیس حل نہ ہو سکا تھا۔

اسلام آباد کا رہائشی مظہر حسین آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا اور چیخ چیخ کراپنی فریاد سنانے لگا، کیسے اس نے قتل کے جھوٹے مقدمے کا سامنا کیا اور انصاف حاصل نہ کر سکا۔ وہ 19 سال تک قید کی زندگی کا بوجھ اٹھاتا رہا اور یوں 2014 میں اس کی ہمت جواب دے گئی، وہ تمام الزامات ساتھ لیے دنیا چھوڑگیا۔ کیس پھر بھی چلتا رہا اور اس کی موت کے دوسال بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسے بے قصور قرار دے دیا۔ 21 سال بعد ملنے والا انصاف اس کے کسی کام کا نہ تھا۔

حیدرآباد کے میر امیر کا کیس تو بھلائے نہیں بھولتا۔ وہ 30 سال اپنی بیٹی سے ہونے والی زیادتی کا جواب عدالتوں سے مانگتا رہا، مگر بے سود۔۔۔اس کی بیٹی کے بالوں میں اترنے والی چاندی بھی کالے الزامات نہیں دھو سکی تھی۔

لاہور کی سیشن عدالت کے باہر سے گزر ہوا، جہاں نظر ایک میلے کچیلے نیم پاگل شخص پر پڑی جو فٹ پاتھ پرنیلے رنگ کی بوسیدہ چادر بچھائے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں پرانے زمانے کا ٹوٹا ہوا ٹیپ ریکارڈر تھا جس سے آنے والی آواز راہگیروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔

زیریں عدالتوں کے حالات پوری دیانت داری کے ساتھ بیان کیے جائیں تو آپ کو آصف زرداری اور نواز شریف بڑے بھلے لوگ لگیں گے۔ ایسی ایسی دل دہلا دینے والی داستانیں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ بیان کرنے لگو تو زبان کانپ اٹھے، لکھنے بیٹھو تو قلم ساتھ چھوڑ دے مگر کیا کیجئے زباں نہیں کھول سکتے۔ یہ رسم ہم بھی نبھائیں گے مگر التوا کا شکار کیسز پر تو بات کی جاسکتی ہے۔ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کا محاورہ تو یاد کیا جاسکتا ہے، اس پر تو کوئی حد نہیں لگتی۔

اس ضمن میں آخری باردسمبر 2014 میں سرکاری اعداد و شمار جاری کیے گئے۔ جس کے مطابق ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں میں دو ملین کے قریب کیسز روایتی تاخیر کا شکار ہیں۔ جن کی کوئی سنوائی نہیں ہو رہی۔ سپریم کورٹ میں22764 ، وفاقی شرعی عدالت میں1014 ، لاہور ہائیکورٹ میں 164684، سندھ ہائیکورٹ میں 170046، پشاور ہائیکورٹ میں27541 ، بلوچستان ہائیکورٹ میں5279 ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں14500 اور باقی ضلعی اور خصوصی عدالتوں کے کیسز ہیں جو کاز لسٹ کا حصہ نہیں بن پا رہے ہیں اور یہ تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔

یہاں ایک واقع یاد آتا ہے، کچھ عرصہ قبل لاہور کی سیشن عدالت کے باہر سے گزر ہوا، جہاں نظر ایک میلے کچیلے نیم پاگل شخص پر پڑی جو فٹ پاتھ پرنیلے رنگ کی بوسیدہ چادر بچھائے بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں پرانے زمانے کا ٹوٹا ہوا ٹیپ ریکارڈر تھا جس سے آنے والی آواز راہگیروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔ ٹریفک کا شور گلوکار کو پہچاننے میں حائل رہا مگر یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ شاعری ساحر لدھیانوی کی تھی۔

انصاف کا ترازوجو ہاتھ میں اٹھائے

یہ بات یاد رکھے

سب منصفوں سے اوپر

اک اور بھی ہے منصف

وہ دو جہاں کا مالک

سب حال جانتا ہے

نیکی کے اور بدی کے

احوال جانتا ہے

دنیاکے فیصلوں سے

مایوس جانے والا

ایسا نہ ہو کہ اس کے دربار میں پکارے

ایسا نہ ہوکہ اس کے انصاف کا ترازو

ایک بار پھر سے تولے

مجرم کے ظلم کو بھی

منصف کی بھول کو بھی

اور اپنا فیصلہ دے

وہ فیصلہ کے جس سے

یہ روح کانپ اٹھے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔