بلاگ
Time 13 دسمبر ، 2017

مقبوضہ بیت المقدس کا مقدمہ

امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا—۔فائل فوٹو

قومی ریاست کا تصور، دیگر کئی سیاسی نظریات کی طرح مغربی مفکرین کی ہی سوچ کا نتیجہ ہے۔ دنیا بھر کی تقریباً تمام ریاستیں قومی ریاست کے تصور کے تحت ہی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اس تصور کے تحت ایک یا ایک سے زیادہ قومیتیں ایک ایسے مخصوص جغرافیائی علاقے، کہ جس میں وہ صدیوں سے اپنی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے ساتھ آباد ہوں، اسی جغرافیائی حدود کو سالمیت کا تصور عطا کر کے ریاست تشکیل دیتی ہیں۔ مگر 1947 میں وجود میں آنے والے اسرائیل کے قیام کے لیے ایک ایسی عجیب و غریب تاویل تراشی گئی کہ جس کا قدیم عہد میں بھی تصور ملنا مشکل ہے۔

ایک مخصوص مذہبی نسل کا یہ دعویٰ کہ ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کے ایک علاقے پر اس بناء پر اسرائیلیوں کے لیے ایک ملک قائم کر دیا جائے کیونکہ قدیم عہد میں ایک عرصے کے لیے وہ اس علاقے میں آباد تھے انتہائی مضحکہ خیز ہے۔

اور اس مضحکہ خیز دعوے کو قبول کرنے اور اس کی بنیاد پر اسرائیل کو وجود میں لانے اور اسے مضبوط بنانے میں وہی مغرب پیش پیش تھا، جس نے خود پوری دنیا میں قومی ریاست کے تصور کو فروغ دیا۔

اپنی تشکیل سے لے کر آج تک کئی جنگیں لڑنے کے باوجود بھی اسرائیل کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے حوالے سے کئی مسائل اس لیے درپیش ہیں کیونکہ اسرائیل ایک فطری اور قومی ریا ست نہیں ہے۔ اس علاقے کے فلسطینی کسی بھی طور اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں اور اسرائیلی حملوں اور جارحیت کے باوجود فلسطینی مزاحمت ختم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔

اب امریکہ نے اپنی 70 سال کی اسرائیل نوازی کی پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقوں میں مظاہرے شروع ہوچکے ہیں بلکہ اس فیصلہ پر مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک نے بھی اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی انتہا پسند دائیں بازو کی حکومت کو یہ آشیرباد مل جائے گی کہ وہ فلسطینی علاقوں میں مزید یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے تشدد کا استعمال کریں اور اس زمین پر صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ بے دخل کر دیں۔

2016 کی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے واضح طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے کو مقبوضہ بیت المقدسمنتقل کرکے ہی دم لیں گے۔ انہوں نے مقبوضہ بیت المقدسکو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے لیے امریکی قانون 'یروشلم ایمبیسی ایکٹ' کا سہارا لیا جسے امریکی کانگرس نے 1995 میں منظور کیا تھا۔

اس قانون کے تحت امریکہ کو اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنا تھا، اب ٹرمپ نے اپنے خطاب میں فخر کے ساتھ کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کی جرات ان کے علاوہ اور کوئی امریکی صدر نہیں کرسکا۔

ٹرمپ کے اس قدم کے پیچھے مقاصد یہی ہیں کہ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے جہاں ایک طرف امریکی بنیاد پرست عیسائیوں کی ہمددریاں حاصل کی جائیں، وہیں دوسری طرف امریکی آبادی میں معاشی اعتبار سے بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے یہودیوں کی حمایت بھی حاصل کی جائے۔

تاہم امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن اور سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے بھی ٹرمپ کے اس فیصلے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ٹرمپ کا یہ فیصلہ عالمی قوانین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جنیوا کنونشن کے مطابق کوئی بھی ملک کسی بھی علاقے کو جنگ کے ذریعے اگر اپنا حصہ بنائے گا تو اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی جبکہ اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس کے اکثر حصے پر 1948 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا۔

 ٹرمپ کے اس فیصلے پر عرب ممالک کی شاہی اور آمرانہ حکومتوں کا ردعمل سراسر رسمی نوعیت کا ہے۔ عرب ممالک کی اکثر شاہی اور آمرانہ حکومتیں اپنے بہت سے معاشی اور سیاسی مفادات کے لیے امریکہ پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے ان میں اتنی جرات نہیں کہ وہ زبانی اور رسمی مذمت سے آگے بڑھ کر کچھ کر پائیں۔

اس فیصلے پر اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ فلسطینی تنظیم حماس سے ہے، جس نے باضابطہ طور پر اس فیصلے کے خلاف فلسطینی اور عرب عوام سے بھرپور احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

حماس صیحح معنوں میں اسرائیل کے لیے درد سر کا باعث 2006 میں اُس وقت بنی جب اس نے غزہ کی پٹی میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ غزہ میں حماس کی جمہوری جیت اسرائیل اور مغربی دنیا کے جمہوریت نواز دعویداروں کے لیے ایک امتحان تھی۔

اگر غزہ کی اکثریت نے 'الفتح پارٹی' کی کرپشن اور اسرائیل کے ساتھ سمجھوتوں کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے 'حماس' کو جمہوری طریقے سے کامیابی دلائی تھی تو اس جمہوری فیصلے کا احترام ہونا چا ہیے تھا۔ مگر اس خطے کی تاریخ کو سمجھنے والے کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں کہ مشرق وسطیٰ میں جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے کیے گئے فیصلوں کی مغربی دنیا کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اگرچہ فلسطین میں 'حماس' پرتشدد کاروائیاں کرنے کا ریکارڑ رکھتی تھی، مگر دنیا میں کئی مزاحمتی تنظیموں کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے مزاحمت کے طور پر تشدد کا راستہ اپنایا لیکن پھر انتخابی دھارے میں شامل ہو کر خالص سیاسی رویہ اختیار کرلیا۔

 انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد حماس نے اسرائیل اور امریکہ کو بات چیت اور مذاکرات کرنے کی دعوت دی مگر ہر مرتبہ معاملات طے کرنے سے انکار کیا جا تا رہا۔

فلسطینی جذبہ حریت کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسرا ئیل بھلے ہی امریکہ اور یورپی حکمرانوں کا چہیتا ہو مگر عوامی سطح پر وہاں بھی ایسے طبقات موجود ہیں جو فلسطینی مزاحمت کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت پر کسی بھی مسلمان ملک میں اتنے بڑے مظاہرے نہیں ہوتے جتنے یورپی شہروں میں ہوتے ہیں۔ مزاحمت اور حریت کے ان جذبوں کو ظلم و ستم سے ختم کرنا ممکن ہی نہیں کیونکہ جتنا زیادہ ظلم بڑھے گا مزاحمت کی شدت میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔


عمر جاوید جیو ٹی وی میں سینئر ریسرچر ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔