پاکستان
04 مئی ، 2012

صوبے میں آگ لگی ہے، اسے بجھایا جائے، چیف جسٹس

صوبے میں آگ لگی ہے، اسے بجھایا جائے، چیف جسٹس

کوئٹہ… چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان میں مختلف خفیہ اداروں کے سربراہوں کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب صوبے کا آئی جی پولیس عدالت میں آسکتا ہے تو خفیہ اداروں کے سیکٹر انچارج کیوں نہیں آسکتے، دوسری جانب سپریم کورٹ کے حکم پر گذشتہ ماہ کوئٹہ کے نواحی علاقے سے لاپتہ ہونے والے تین افراد منظر عام پر آگئے ۔ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری کی سربراہی میں آج مسلسل چوتھے روز بھی جاری ہے، سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک سکندر نے عدالت کو بتایا کہ خفیہ اداروں کے سیکٹر انچارج کوئٹہ میں موجود نہ ہونے کی بناء پر عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہ جب پولیس کاآئی جی عدالت میں آسکتا ہے تو خفیہ اداروں کے سیکٹر انچارج کیوں نہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس بھی دئیے کہ ہم عدالت میں کہانیاں سننے کے لئے نہیں بیٹھے، صوبے میں آگ لگی ہوئی ہے اسے بجھایا جائے، کوئٹہ کے علاقے مارواڑ سے گیارہ اپریل کو لاپتہ سات میں سے تین افراد کے ایک رشتہ دار عدالت میں پیش ہوئے جس نے بتایا کہ تینوں لاپتہ افراد گھر پہنچ گئے ہیں لیکن طبعیت ناساز ہونے کی بناء پر عدالت نہیں آسکے،انہوں نے عدالت سے استدعا بھی کی کہ مارواڑ سے لاپتہ ہونے والے چار افراد کو بھی بازیاب کرایا جائے،اسی دوران پولیس حکام کی جانب سے عدالت کو درخواست کی گئی کہ وہ عدالت کو کچھ عرصہ قبل مستونگ کے علاقے دشت سے لاپتہ دو افراد کے بارے میں چیمبر میں علیحدہ سے بریفنگ دینا چاہتے ہیں، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کا کہنا تھا کہ مستونگ سے لاپتہ افراد کے کیس میں ہمیں کچھ ایسے شواہد ملے ہیں کہ جس سے 10مزید لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے،جس پر عدالت نے یہ درخواست منظور کرلی، اس سے قبل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پانچ سال قبل لاپتہ ہونیڈاکٹر اکبر مری کی بیٹی کو تنخواہوں کی مد میں 30لاکھ روپے کی ادائیگی کردی گئی ہے جبکہ کوئٹہ سے بازیاب ہونے والے ڈاکٹر نصیر کی کار بھی برآمدہوگئی ہے۔

مزید خبریں :