پاکستان
13 اپریل ، 2015

اوباما پاکستان کادورہ کریں گے، جب سیکورٹی صورتحال معمول پر آجائے گی

اوباما پاکستان کادورہ کریں گے، جب سیکورٹی صورتحال معمول پر آجائے گی

کراچی..…رفیق مانگٹ..…امریکی جریدہ ’’فارن پالیسی‘‘ لکھتا ہے کہ اوباما نے نواز شریف کو بتا دیا تھا کہ وہ پاکستان کا اس وقت دورہ کریں گے، جب وہاں کی سیکورٹی صورت حال معمول پر آجائے گی۔ جنوری2015 میں امریکی صدر براک اوباما نے جنوبی ایشیائی خطے میں اپنا دوسرا دورہ کیا وہ بھارت تو گئے، مگر پاکستان نہیں آئے۔ بھارتی نقطہ نظر سے اوباما کا دورہ کامیاب تھا، اوباما اور مودی نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کے 2005سے التوا میں پڑے معاہدے کی تجدید کی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے پوری کوشش کی کہ اوباما پاکستان کا دورہ کریں، لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اوباما نے نواز شریف کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ وہ بھارت کا دورہ کریں گے۔ اوباما کا دوہ پاکستان نہ کرنے کے اقدام کو سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ’سفارتی ناکامی‘ قرار دیا تھا۔ ان کا یہ بیان ان کے استعفیٰ کا سبب بنا کیونکہ ان کے بیان نے پاکستان کے سرکاری موقف کو چیلنج کیا۔ ’’اوباما پاکستان کا کیوں دورہ نہیں کریں گے‘‘ نامی مضمون میں پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف زہر افشانی کی گئی کہ پاکستان نے اپنے بنیادی ڈھانچے اور سماجی خدمات میں سرمایہ کاری کی بجائے دفاع پر زیادہ زور دیا۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران پاکستان کے دفاعی اخراجات دگنا ہوگئے، ملک کے مجموعی بجٹ کا تیس فی صد بجٹ اس مد میں جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نصف سے زیادہ آبادی خط غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ جن کی یومیہ آمدنی صرف دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ صحت کے مراکز میں سہولیات کی عدم دستیابی ہے، اسکولوں کی کمی اور عدم رواداری ہے۔ توانائی کے بحران نے معیشت تباہ کردی۔ کچھ سیکٹر تو اس صورت حال میں پس گئے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور فوج کے خلاف زہر افشانی کی گئی، لکھا کہ امریکا کے نوٹس لینے سے پہلے پاکستان کو اپنی معاشی سرگرمیوں اور متضاد پالیسیوں کے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ 1947سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح نہیں پاکستان میں کئی عوامل نے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے رکاوٹیں پیدا کی۔ 2013کے بعد نواز شریف نے چین اور ایران کے ساتھ کئی مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے۔ مگر ان میں بہت کم حقیقت کا روپ لے پائے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ایک مشترکہ منصوبہ نندی پور پاور پلانٹ صرف پانچ دن آپریشنل ہو پایا۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ایران کے خلاف امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیاں آڑے ہیں۔ چین نے 2011میں کیے گئے تھر کول کے معاہدے سے19ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا اور بلوچستان میں ریکوڈک بھی قانونی پیچیدیگیوں کا شکار ہوا گیا۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستا ن نے اپنے ہمسایوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کی کوشش نہیں کی۔ بھارت کے پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں امریکہ پاکستان کے بجائے بھارت پر توجہ مرکوز کرے گا۔ پاکستان کی مبہم ترقی اور متضاد پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے کیا اوباما کو پاکستان کا دورہ کرنا چاہیئے۔

مزید خبریں :