پاکستان
28 جولائی ، 2015

کراچی آپریشن:سیکورٹی حکام اور ایم کیوایم میں محاذ آرائی تیز

کراچی.... رفیق مانگٹ...... امریکی اخبار ”واشنگٹن پوسٹ“ نے کراچی کی صورت حال پر اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ قتل کی شرح کے لحاظ سے بدنام شہر کراچی میں حکومت امن بحال کرنے کی کوشش میں ہے۔ لیکن سیکورٹی حکام کی حکمت عملی سے طاقتور سیاسی تحریک کے ساتھ محاذ آرائی تیز ہو گئی جوآسانی سے مغلوب نہیں ہوگی۔2013 میں کراچی میں2789 قتل جو ایک ریکارڈ ہے اور بہت زیادہ بم دھماکے ہوئے جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے پیرا ملٹری فورسز یعنی پاکستانی رینجرز کو امن بحال کرنے کا حکم دیا۔ ان کا مقصد مافیا گروپوں، اسلامی عسکریت پسندوں اور منشیات کارٹلز کی طرف سے کئی دہائیوں سے جاری لاقانونیت کا خاتمہ تھالیکن ایک خاص ہدف کچھ گینگسٹر تھے جن کا شہر کے انتہائی بااثر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساتھ روابط کا شبہ کیا گیا۔نواز شریف کی حکومت کی ساکھ کے لئے یہ اہم ترین سوال ہے کہ دو کروڑ کے شہر میں رینجرز نسلی اور ثقافتی تقسیم کیے بغیر سیکورٹی فوائد مستحکم کر سکتے ہیں یا نہیں؟اخبار کے مطابق بہر حال پہلے کے مقابلے میںکراچی آج ایک بہت محفوظ جگہ ہے۔ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 1823افراد قتل ہوئے جبکہ 2013 میں اس سے ایک ہزار زائد قتل ہوئے، رواں برس ان اعدادوشمار میں مسلسل کمی آرہی ہے ،جنوری سے جون تک501 افراد قتل ہوئے۔بہتری کی علامت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کراچی ریٹیل آو¿ٹ لیٹس میں حالیہ اسلامی مقدس مہینے رمضان کے دوران ریکارڈ فروخت ہوئی ۔ اخبار لکھتا ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں کے مطابق،گزشتہ دو برس میں ان کے چار ہزار حامیوں کو گرفتار کیا گیا۔ان میں سے کچھ کو ان جرائم پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن کا انہوں نے ارتکاب بھی نہیں کیا۔ پاکستانی فورسز نے سیکولرپارٹی کے کاروباری حضرات سے وسیع خیراتی نیٹ ورک کے فنڈ میں مدد کےلئے طویل عرصے جاری عطیات کے جمع کرنے پر کریک ڈاون کیا ۔ایم کیو ایم کے سفارتی امور کے سربراہ محمد فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ہم تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں، حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف ہو چکے ہیں۔ایم کیو ایم کو دیوار کے ساتھ دھکیلا جا رہا ہے۔فاروق ستار کا کہنا ہے گزشتہ دو سال کے دوران چار ہزار ایم کیو ایم کے ہمدرد وں کوگرفتار کیا گیا، 750 سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ چالیس ماورائے عدالت قتل ہو چکے ہیں اور 20 لاپتہ ہیں۔ 200 حریف گروپوں کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس پارٹی کے فلاحی کاموں کے لئے عطیات میں 75 فیصد کمی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ مائنڈ سیٹ ہے کہ ہم ہر مسئلے کے ذمہ دار ہیںتواس کے بعد ہم یہاں سے کہاں جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی علی رضا عابدی کا کہنا ہے کہ یہ نسلی اور امتیازی سلوک ہے،اخبار کے مطابق سیکورٹی فورسز کے ہاتھوںایم کیو ایم کے کارکنوں پر تشدد پر پاکستانی رینجرز کے ترجمان، وزارت داخلہ اور فوج نے تبصرے سے انکار کر دیا۔لیکن بہت سے ریٹائرڈ پاکستانی فوجی حکام اور سیاسی رہنما رینجرز کا دفاع میںکہتے ہیں کہ کراچی میںقتل میں کمی اسی وجہ سے ہوئی کہ ایم کیوایم کے ہمدرد کراچی کے ماضی میںتشدد کے ایک بڑے حصے کے ذمہ دار تھے۔پاکستانی حکام ایم کیو ایم کی پیسے تک رسائی کو بھی روک رہے ہیں۔اخبار کے مطابق سطحی لحاظ سے ایم کیو ایم ایک متحرک سیاسی تنظیم ہے جو مظلوم ووٹروں کی خدمات کرتے ہیںاور خاص ان لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو1947 میں تقسیم کے دوران بھارت سے پاکستان ہجرت کرکے آئے۔ لیکن ایم کیو ایم کے کارکنوں اور پیروکاروں پر کئی سالوں کے دوران سیکڑوں افراد کے قتل کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔تجزیہ کاروں اور حکام کا کہنا ہے کراچی کے معاملات پر گرفت رکھنے کے لئے پارٹی کی طرف سے طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین زور دیتے ہیںکہ وہ تشدد سے اجتناب کرتے ہیں تاہم وہ اس سے انکار نہیں کرتے کہ ان کے کچھ حامی جو آزادانہ طور کام کرتے ہیں وہ گزشتہ برسوں کے دوران غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہو ں۔تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کا کہنا ہے کہ کراچی کے عوام اب بڑا سکھ کاسانس لے رہے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمافرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز کا کوئی غلط اقدام جو مجرمو ں سے لڑائی کی بجائے سیاسی محاذ دکھائی دے، اس سے تباہ کن اثرات پڑیں گے۔ایک مسئلے کو حل کرنے کی بجائے یہ ایک خود تباہ کن بحران مدعو کرے گا۔ اخبار کے مطابق قیام پاکستان کے وقت ستر لاکھ اردو بولنے والے مہاجروں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، اور سب سے زیادہ کراچی اور صوبہ سندھ کے ارد گرد کے علاقوں میں آباد ہوئے، کہا جاتا ہے کہ بار بار پنجابیوں، پشتونوں اور سندھیوں کی طرف سے انہیںپسماندہ رکھا گیا ۔برطانیہ میں مقیم الطاف حسین اس تشویش پرتیزی سے رواداری، سیکولرازم اور اعتدال پسندی کے ایک پلیٹ فارم پر ایک غالب سیاسی تنظیم کھڑی کی۔انکے حامی الطاف حسین کو ایک بادشاہ کی طرح سمجھتے ہیں۔پارٹی ایک بار پھر خطرے کے احساس سے دوچار ہے،ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ کراچی ایک نئے بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔


مزید خبریں :