دنیا
15 اکتوبر ، 2015

نہ گھر نہ ماں باپ کا سایہ، شامی بچوں کی زندگی مزید مشکل

نہ گھر نہ ماں باپ کا سایہ، شامی بچوں کی زندگی مزید مشکل

ایتھنز.......نہ گھر ، نہ ماں باپ کا سایہ، شامی بچوں کی زندگی مزید مشکل ہوگئی۔ ترکی کے راستے یونان پہنچنے پر عادی مجرموں کی جیل میں رکھا جاتا ہے۔

سر پہ چھت نہیں ، ممتا کی گرم آغوش نہیں اور باپ کی شفقت کا سایہ بھی میسر نہیں، دیس میں ہے خانہ جنگی، ایسے میں ننھے فرشتے کہاں جاتے؟ پانی کی لہروں پر سفر کرتے ترکی کے راستے یونان پہنچے جہاں منتظر تھا ایک قید خانہ۔

یونان کے کوس آئی لینڈ کی جیلوں میں گیارہ سال سے کم عمر مہاجر بچے بغیر کسی گناہ کے عادی مجرموں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ قید خانہ جہاں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے ملتا ہے اور کبھی دو دن تک بھی پیٹ کی آگ بجھانے کو ایک لقمہ بھی میسر نہیں ہوتا۔

یہ دل دہلادینے والے انکشافات کیے ہیں ایک غیر سرکاری تنظیم کے والینٹرز نے جن کا کہنا ہے کہ کوس کی جیلوں میں رکھے جانے والے چھوٹے چھوٹے بچے سہمی ہوئی زندگی گزار رہے ہیں۔

جن ہاتھوں میں کھلونے ہونا چاہییں، ان میں ہتھکڑیاں بھی نظر آتی ہیں، سزا کی وجہ؟ جیل سے باہر جانے کی کوشش۔ وہ بچے جو ذرا سی آہٹ سے بھی ڈر جاتے ہیں، ان قید خانوں میں رہتے ہیں، جہاں بجلی کی تاریں دوڑتی ہیں۔ یو این باڈی اور کوس کے پبلک پراسیکیوٹر نے بچوں کو جیلوں سے دور رکھنے کا معاہدہ تو کیا، لیکن افسوس اس معاہدے پر اب تک عمل نہیں ہوسکا۔

مزید خبریں :