29 اکتوبر ، 2015
نیویارک......نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ میں شامل چار وفاقی وکلا نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے قانونی راہ ہموار کی تھی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ، مئی 2011 میں جب انتظامیہ نے اس کمپائونڈ پر آپریشن کی اجازت دی کہ جہاں اسامہ بن لادن مقیم تھا ، تو اس وقت اوباما انتظامیہ میں شامل چار وفاقی وکلا نے اس چھاپے کے لیے قانونی بنیاد اور وجوہات تیار کرلی تھیں، تاہم سب ایک بات پر متفق تھے کہ چھاپے کے دوران اسامہ کو گرفتار کرنے کے بجائے جان سے ماردیا جائے ۔
رپورٹ کے مطابق ، اس معاملے کو انتہائی خفیہ رکھنے کے لیے ان چاروں وکلا کو اٹارنی جنرل سمیت کسی سے مشورہ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی، وہ جس لیپ ٹاپ پر کام کررہے تھے وہ انتہائی محفوظ نیٹ ورک پر تھے، اور وہ تجاویز انہوں نے تحریر کی تھیں ان کا تبادلہ بااعتماد کوریئر کے ذریعے کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ، ان چاروں وکلا نے چھاپے سے چند روز قبل پانچ خفیہ میموز تحریر کرلیے تھے، جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپریشن میں کوئی گڑبڑ ہوگئی تو پیش کیے گئے قانونی جواز کے بارے میں وضاحت کی جاسکے ۔
رپورٹ کے مطابق ، ان وکلا کی جانب سے پیش کیے گئے قانونی جواز اور تجزیے کے بعد ہی اوباما انتظامیہ نے نہ صرف پاکستان کی اجازت کے بغیر اس کی سرزمین پر اپنی فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا ، بلکہ اس کے بارے میں کانگریس تک تک تاخیر سے آگاہ کیا ، اور جب آپریشن ہوچکا تو، ایک اہلکار کے مطابق، ان وکلا کا کہنا تھا کہ امریکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسی مہلک کارروائی کے لیے واضح اور کافی اختیار موجود تھا ۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ، کچھ قانونی ماہرین نے اس فیصلے پر اعتراضات اٹھائے تھے تاہم کامیاب آپریشن کے بعد ناقدین کے منہ بند ہوگئے ۔
رپورٹ کے مطابق ، یہ بھی منصوبے کا حصہ تھا کہ اگر امریکی کمانڈوز اسامہ تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر اوباما انتظامیہ اس معاملے کے راز سے پردہ اٹھادے گی لیکن اگر اسامہ اس کمپائونڈ نہ مل پاتا تو اس صورت میں یہی ظاہر کیا جانا تھا کہ ایسی کوئی کارروائی کبھی کی ہی نہیں گئی ۔