03 نومبر ، 2015
انقرہ........ترکی کے نہایت غیرمتوقع انتخابی نتائج نے ملک میں سب کو ہی حیران کردیا ہے۔ اور تو اور خود کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کی قیادت اور اِس کے کارکن بھی اتنی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کررہے تھے۔
13 برس سے برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ یا اے کے پارٹی کے متعلق یہ تو سب ہی جانتے تھے کہ وہ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی۔ یہ پیشن گوئیاں کی جارہی تھیں کہ شائد پانچ ماہ پہلے کے مقابلے میں پارٹی کے ووٹ کچھ بڑھ جائیں لیکن 50 فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے حصول کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔
پچھلے انتخابات کے مقابلے میں اس بار اے کے پارٹی کے ووٹوں میں ساڑھے آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی کے منفرد انتخابی نظام کے باعث 2002 ء میں جب پارٹی نے تقریباً 15 فیصد کم ووٹ حاصل کیے تو اْس وقت اْس کے پاس 363 نشستیں تھیں۔ترک انتخابی نظام کے تحت صرف وہی جماعتیں پارلیمانی نمائندگی کا حق حاصل کرپاتی ہیں جنھیں ڈالے گئے ووٹوں کا کم از کم دس فیصد ملے۔ اور اس حد سے کم ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے ووٹ کامیاب جماعتوں میں حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سے تقسیم ہوجاتے ہیں۔
نتائج کتنے غیرمتوقع ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن سے تین روزاے کے پی کے احمد بیرات چونکر کا کہنا تھا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ انکی پارٹی 44سے 45 فیصد تک ووٹ حاصل کرلے گی۔ احتیاطاً انھوں نے ایک مخلوط حکومت کے امکان کو بھی رد نہیں کیا تھا۔
گذشتہ پانچ ماہ کے پرتشدد واقعات خصوصاً انقرہ کے بم حملے کے بعد پورے ترکی میں زبردست قوم پرست جذبات دیکھنے میں آئے جس کا بالواسطہ فائدہ اے کے پارٹی کو پہنچا۔ اولاً رائے دہی کی بہت بلند شرح کا فائدہ حکمران جماعت کو ہوا۔