22 دسمبر ، 2015
کوئٹہ......بلوچستان میں کوئلے کی کانیں موت کی دکانیں بن گئیں، غریب کان کُن یہاں محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں لیکن موت خرید لاتے ہیں، دنیا بھر میں کان کنوں کی سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں ہوتی ہیں۔
بلوچستان میں کوئلہ کی کان کنی کا آغاز 1873ء میں ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ صدی گذرنےکے باوجود کانکنی کے طریقہ کار میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔
صوبے کی 5 ہزار سے زائد کانوں سے سالانہ 20ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے، یہاں 40 ہزار سے زائد مزدور 18، 18، گھنٹے تک شب وروز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کان کنی کرتے ہیں، انہیں نہ جدید آلات میسر ہیں اور نہ ہی سیفٹی قوانین سے آگاہی دی جاتی ہے۔
بلوچستان میں کوئلے کی کان کنی کی 140سالہ تاریخ میں اب تک 70بڑے حادثات ہوچکے ہیں، پچھلے 5سال کے دوران 3سو سے زائد کان کن اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں ایک ہزار فٹ سے لیکر 5ہزار فٹ تک کان کنی ہورہی ہے۔
محکمہ معدنیات کے حکام زیادہ گہرائی میں کانکنی کو ہی حادثات کی اہم وجہ بتاتے ہیں، محکمہ معدنیات بلوچستان نے140خطرناک کانوں کو بند کرنے کے نوٹس دئیے مگر مائن اونروں کے بااثر ہونے کی وجہ سے بیشتر کانیں سیل نہ ہوسکیں۔
صوبے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی پر مائن اونروں کے خلاف سینکڑوں کیسز بھی عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں۔