22 دسمبر ، 2015
لودھراں.......لودھراں میں این اے 154 میں کل ہونے والے ضمنی انتخاب کے لیے پولنگ کے سامان کی ترسیل مکمل کرلی گئی ہے۔
23دسمبر کو لودھراں کی سیاست کا اہم مرحلہ آنے والا ہے اور این اے154کے ضمنی الیکشن میں فیصلہ یہ ہونا ہے کہ گذشتہ چار دھائیوں سے لودھراں کی سیاست پر راج کرنے والے صدیق خان بلوچ اپنی نشست جیت پائیں گے یا پھر لودھراں میں نظام کی تبدیلی کی سیاست کا نعرہ لے کرمیدان میں آنے والے جہانگیر ترین اپنا تخت سجا لیں گے۔
صدیق بلوچ اور ان کی فیملی کی سیاسی زندگی پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو صدیق بلوچ کے نانا نور محمد نے 1976میں، 1985 میں
صدیق بلوچ کے والد جندوڈا خان نے جبکہ1988اور1990میں مسلم لیگ ن کی طرف سے صدیق بلوچ خود لودھراں سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
سیاسی زندگی میں صدیق بلوچ یا اس کی فیملی کو صرف ایک بار 1993میں لودھراں سے شکست ہوئی ۔1997میں صدیق بلوچ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2002میں بی اے کی شرط کی وجہ سے صدیق بلوچ نے حصہ نہیں لیا۔بیٹوں کی عمر بھی الیکشن لڑنے کی نہیں تھی جس پر انہوں نے اپنے بھانجے اعجاز بلوچ کومسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیاب کروایا۔
2008کے الیکشن میں صدیق بلوچ ق لیگ کے ٹکٹ پر این اے154سے منتخب ہوئے۔ 2013میں صدیق بلوچ نے ن لیگ سے اختلاف کے باعث آزاد حیثیت سے این اے154اور پی پی 210سے پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین اور ن لیگ کے رفیع الدین بخاری کے مقابلے میں جیتا اور رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے ۔
جہانگیر ترین 1997سے1998تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے مشیر رہے ۔ سیاسی زندگی کا سفر آبائی گاؤں لودھراں کی بجائے اپنے برادر نسبتی کے مشورے سے رحیم یار خان سے شروع کیا ۔ 2002کے عام انتخابات میں این اے195سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور وفاقی وزیر صنعت وپیداوار رہے۔
2008میں این اے 195سے فنکشنل لیگ کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ بعد میں اپنے برادر نسبتی اور اس وقت کے صوبائی صدر فنکشنل لیگ مخدوم احمد محمودکے ساتھ اختلافات کے باعث مسلم لیگ فنکشنل کو چھوڑ کر 2012میں تحریک انصاف میں شمو لیت اختیار کرلی اور 2013 کا الیکشن آبائی گاؤں لودھراں سے لڑا اور آزاد امیدوار صدیق بلوچ سے ہار گئے ۔ اب 23 دسمبر کو این اے 154 کے ضمنی انتخاب میں قسمت آزمائی کریں گے۔