23 دسمبر ، 2015
واشنگٹن .........شوکت پیرزادہ.........امریکہ میں خوراک اور ادویات کے ادارے (ایف ڈی اے)کی جانب سے 30 سال کی پابندی کے بعد ہم جنس پرست مردوں کے خون عطیہ کرنے کے حوالے سے قانون میں نرمی کی گئی ہے۔
اب وہ ہم جنس پرست افراد جو ایک سال سے جنسی طور پر سرگرم نہیں ہیں انھیں خون عطیہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ہم جنس پرستی کے لیے سرگرمِ عمل کارکنوں نے اس ایک سالہ قانون کو امتیازی سلوک قرار دیا ہے۔ لیکن یہ قانون دیگر ممالک مثلاً برطانیہ، آسٹریلیا اور جاپان کی پالیسی سے مماثلت رکھتا ہے۔
یہ پابندی 1980 میں مہلک مرض ایڈز کے بحران کے آغاز کے موقع پر لگائی گئی تھی۔وہ گروہ جو خون کے عطیات کے لیے آمادہ کرنے کے لیے کام کرتے ہیں انھوں نے ہم جنس پرست عطیہ کنندگان پر پابندی کو طبی طور پر غیر مجاز قرار دیا ہے۔انسانی حقوق کی مہم کے ایک سرگرم کارکن ڈیوڈ اسٹیسی نے اس فیصلے کو درست سمت کی جانب قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایف ڈی اے کو اس سلسلے میں مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈیوڈ اسٹیسیکا کہنا ہے کہ اس سے ہم جنس پرستوں اور خنثوں (دونوں جِنسی خصوصیات کے حامل) کی بدنامی ہوگی۔ محض موجودہ سائنسی تحقیق اور خون کی جانچ کی جدید ٹیکنالوجی کی روشنی میں اِسے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ایف ڈی اے کا یہ فیصلہ 2014 میں دی جانے والی ایک رسمی تجویز کی پیروی کرتا ہے۔
امریکی وفاقی ایجنسی نے خون کے عطیات کے لیے جو قومی معیار ترتیب دیا ہےاس کی جانچ بیماریوں کے لیے کی جارہی ہے۔اس قانون کی تبدیلی سے قبل امریکہ میں امکانی عطیہ کنندگان جو 1977 کے بعد سے دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کا اعتراف کرتے تھے انھیں خون دینے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔
نئی پالیسی ناصرف ہم جنس پرست مردوں بلکہ دیگر انتہائی حساس گروہوں کے لیے بھی یکساں ہے۔ وہ لوگ جو گذشتہ 12 ماہ کے دوران جسم فروشوں کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرچکے ہیں یا نسوں کے ذریعے جسم میں داخل ہونے والی منشیات استعمال کرچکے ہیں ان پر بھی خون عطیہ کرنا ممنوع ہے۔