15 دسمبر ، 2016
سرتاج عزیز کے دورہ بھارت کی خبریں سنیں اور پڑھیں تو چچا غالب بہت یاد آئے۔ کیا خوب فرما گئے ہیں کہ۔۔۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن۔۔
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
سرتاج عزیز کے دورہ بھارت کے حوالے سے دو حوالوں سے تنقید ہو رہی ہے ایک تو یہ کہ ان کو ایسے حالات میں بھارت جانا ہی نہیں چاہیے تھا جبکہ بھارت سرحدوں پر مسلسل گولہ باری کرتا رہا اور معصوم پاکستانی شہری شہید ہو تے رہے۔
بھارت نے سارک کے حوالے سے بھی بہت شرمناک کردار ادا کیا ہے ۔اور تو اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کا پانی بند کر کے بوند بوند کو محتاج کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ دوسرے وہُ لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ بھارت تو چاہتا ہی یہی تھا کہ پاکستان ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت نہ کرے اس لئے اس نے ایسے حالات پیدا کئے۔
سو سرتاج عزیز کا جانا ہماری ڈپلومیٹک ضرورت تھا میں چونکہ تاریخ کا طالب علم ہوں اس لئے انہیں تاریخی حوالوں سے سمجھنا ہو گا ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے تقریباً سات سو برس پہلے قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے اپنا مشہور زمانہ نظریہ عصبیت پیش کیا جسےآج بھی ایک ماڈل کے طور پر لیا جاتا ہے۔
اس نے قومی غیرت اور حمیت پر بڑا زور دیا ہے اور بڑا واضح کہا ہے کہ جس قوم سے غیرت اور حمیت رخصت ہو جاتی ہے اسے زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔دانائے راز حضرت علامہ اقبال بھی اپنی نظم غلام قادر روہیلہ میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں:
غلام قادر روہیلہ برصغیر کی تاریخ میں ایک انتہائی سفاک اور سنگدل شخص گزرا ہے جس نے مغل شہنشاہ شاہ عالم کی آنکھیں نکلوا ڈالیں اور مغل شہنشاہیت کے جبروت اور سطوت کی نشانی لال قلعہ میں تیمور اور بابر کی بیٹیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا۔
اقبالؒ نے اقوام کے عروج و زوال کے اہم اسباب میں سے ایک اہم سبب پر روشنی ڈالی ہے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
علامہ اقبالؒ نے برصغیر کی تاریخ کے اہم دردناک واقعے کی طرف اشارہ کردیا ہے‘ جب غلام قادر روہیلہ نے لال قلعے کے دیوان خاص میں جہاں کبھی شہاب الدین محمد شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر تخت طاؤس پر بیٹھ کر ہندوستان کی تقدیر کے فیصلے کرتے تھے‘ اسی دیوان خاص میں اس نے مغل شہزادیوں کو ناچنے کا حکم دے دیا اور خود خنجر پاس رکھ کر سوتا بنا لیکن مغل شہزادیاں ناچتی رہیں۔ اس وقت غلام قادر روہیلہ نے یہ تاریخی جملہ بولا:
”میرا خیال تھا کہ تیمور کی بیٹیوں میں کچھ غیرت و حمیت باقی رہ گئی ہو گی اور وہ مجھے سوتا سمجھ کر میرے خنجر سے قتل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب مغل شہنشاہیت کو مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔“
سرتاج عزیز کو ڈپلومیسی کی زبان میں ایک معزز اور خودمختار قوم کے نمائندے کا بھی اسٹیٹس نہیں دیا گیا پریس کانفرنس سے روک کر ویانا کنونشن کیُ دھجیاں اڑا دی گئیں۔ افغانستان کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی نےبڑے دھڑلے سے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور ہم صرف مسکرا کر رہ گئے۔مودی نے بھی نام لئے بغیر پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دیا اور ہم حسب روائت ڈپلومیسی کا طبلہ بجاتے رہے ۔
اگر انسان میں غیرت اور حمیت ہو تو چانٹے کا جواب چانٹے سے دینا ضروری ہوتا ہے یا ہم نے اب گاندھی کے فلسفے پر عمل کو ڈپلومیسی کا نام دے دیا ہے کہ اپنا دوسرا گال بھی آگے کر دیں۔ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والی قوم تو ہم ہیں اور ہمیں ہی دہشت گرد کہا جا رہا ہے ۔بھارت خود مسئلہ کشمیر کو اقوم متحدہ میں لے کر گیا تھا اور ہم ہاتھ جوڑے مذاکرات کی درخواست کر رہے ہیں۔
بھارت کا رویہ قصور وار ہو کر بھی جارہانہ ہے اور ہم بے قصور ہو کر بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بھارت اس وقت خطے میں ہونے والی بین الاقوامی گریٹ گیم کا حصہ بنا ہوا ہے وہ کشمیر اور پانی کے معاملے میں کبھی مذاکرات نہیں کرے گا بلکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنا ہی گریٹ گیم کاحصہ ہے۔
(ادارہ کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔)