26 جون ، 2025
یوٹیوب پر بیٹھے بعض’’نام نہاد حمایتیوں‘‘نے عمران خان کا نام لے لے کر اپنا بینک بیلنس بڑھایا۔ جھوٹ، افواہیں، سنسنی خیزی اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے اُن کا ہتھیار بنے۔ ان یوٹیوبرز کا نہ کوئی سیاسی وژن ہے، نہ کوئی اخلاقی معیار، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی باتوں کو پارٹی پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ عمران خان کی مقبولیت کو استعمال کر کے ان عناصر نے ایسا ماحول پیدا کیا جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کو اور بڑھاتا گیا۔
اسی طرح پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی رہنما ایسے ہیں جنہوں نے عمران خان کو صحیح اور غلط کا مشورہ دینے کی بجائے اُن کی ہاں میں ہاں ہی ملائی تاکہ اُن کا اپنا سیاسی مفاد محفوظ رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عمران خان کو اصل، بروقت اور دیانت دارانہ مشورہ دینے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔ آج پی ٹی آئی جس بند گلی میں کھڑی ہے، وہاں سے نکلنے کیلئے محض نعرے، سوشل میڈیا مہم اور مزاحمتی بیانات کافی نہیں۔ عمران خان کو اگر واقعی اپنا اور اپنی جماعت کا سیاسی مستقبل عزیز ہے تو انہیں اعتماد کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ انہیں پرویز الٰہی، شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو عملی طور پر اختیار دینا ہوگا۔ وہ اختیار جو انہیںفیصلے کرنے اور اُن پر عمل کروانے کے قابل بنائے۔
اسی طرح بیرسٹر گوہر علی خان پر بھی بھروسہ کرنا ہو گا جن کو پارٹی کا چیئرمین تو بنا دیا گیا لیکن اختیارات نہیں دیے گئے۔ بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کا حکومت اور ریاستی اداروں کے اندر بھی ایک احترام موجود ہے اور جو مہذب زبان میں معاملات سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اور صرف وہی اسٹیبلشمنٹ سے بات کر سکتے ہیں، حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اور نہ ہی پارٹی کی کور کمیٹی یا سیاسی کمیٹی کسی فیصلے کی مجاز ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مسائل کیسے حل کرے گی؟
سیاست میں مشاورت اور ٹیم ورک بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ اگر ہر فیصلہ صرف ایک شخص کے دماغ سے نکلے، اور وہی حرفِ آخر ہو، تو یہ خود پسندی ہے، قیادت نہیں۔ عمران خان کو آج ایک ایسا ساتھی چاہیے جو سیاست کو صرف جلسوں اور نعروں سے نہیں، بلکہ تدبر اور سمجھداری سے آگے بڑھائے۔ انہیں اپنی پارٹی میں ایک’’شہباز شریف‘‘جیسا کردار چاہیے جو اُن کیلئے اُسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کر سکے جیسے میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف اور ن لیگ کیلئے کیے۔
کسی پر اعتماد کرنا ہو گا جو اُن کیلئے اور پارٹی کیلئےمعاملات کو سلجھا سکے اور اقتدار کے راستے میں رکاوٹوں کو کم کرے۔ارد گرد موجود خوشامدی عناصر اور ذاتی مفاد رکھنے والے افراد سے نجات حاصل کریں، جو ہر وقت اور اُن کے ہر فیصلے اور ہر بات چاہیے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو اُس پر صرف تالیاں بجانے میں مصروف رہتے ہیں۔
اب بھی اگر عمران خان اپنے اندازِ قیادت میں تبدیلی لاتے ہیں، سنجیدہ اور بااعتماد افراد کو آگے لاتے ہیں، اور پارٹی کو ایک ادارہ جاتی ڈھانچے کے تحت چلاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی سیاست بچا سکتے ہیں بلکہ ملک کے سیاسی مستقبل میں مثبت کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ ورنہ پیسے بنانے والے اُن کے نام نہاد حمایتی یوٹیوبر، پارٹی سوشل میڈیا اور مفاد پرست سیاسی ساتھی اُنہیں اُس راہ پر لے جائیں گے جہاں صرف تنہائی، محرومی اور ناکامی کا سایہ ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔