26 جون ، 2025
گوتم اڈانی کا تعلق بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد سے ہے۔ بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کئی مرتبہ لوک سبھا میں اڈانی اور وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر لہرا چکے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اڈانی نے مودی حکومت کے ذریعہ اپنے کاروبار کو خوب وسعت دی اور دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گیا۔ مودی کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو اڈانی کے ہوائی جہاز کا بے تحاشا استعمال کرتے تھے۔ اس ہوائی جہاز پر بیٹھ کر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے جس کے بعد اڈانی کے کاروبار کو چار نہیں بلکہ آٹھ چاند لگ گئے۔
مودی نے اڈانی کی ملاقات اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے کرائی اور 2023ء میں اسرائیل نے اپنی سب سے بڑی بندرگاہ حیفہ کے 70فیصد شیئرز ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے عوض اڈانی گروپ کو فروخت کر دیئے۔ اڈانی گروپ کو حیفہ پورٹ کے 70فیصد شیئرز فروخت کرنے کی کہانی 2018ء میں شروع ہوئی جب اسرائیل کی ایک اسلحہ ساز کمپنی ELBIT SYSTEMS نے اڈانی گروپ کے ساتھ مل کر بھارت کے شہر حیدرآباد میں ہرمیز 900ڈرون اور میزائل بنانے کی فیکٹری قائم کی۔ اڈانی گروپ کو مودی سرکار کی بھر پور معاونت حاصل تھی لہٰذا دو سال کے اندر اندر فیکٹری قائم ہوگئی اور پروڈکشن بھی شروع ہوگئی۔ 2022ء تک اس فیکٹری کے تیار کردہ میزائل اور ڈرون اسرائیلی فوج نے ٹیسٹ کر لئے اور اس فیکٹری کی 85فیصد پروڈکشن خریدنے پر آمادگی ظاہر کردی۔
حیدرآباد سے اڈانی گروپ حیفہ پہنچا اور اسرائیل کی اس اہم بندرگاہ کے 70 فیصد شیئرز خرید کر پوری دنیا کو حیران کردیا۔ یہ کامیابی صرف اڈانی کی نہیں بلکہ بھارت کی بھی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ایک طرف بھارت کی طرف سے اسرائیل کے دشمن ایران کی بندرگاہ چابہار میں سرمایہ کاری کی گئی تھی اور دوسری طرف ایک بھارتی کمپنی نے حیفہ پورٹ کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ جیسے ہی حیفہ پورٹ کا انتظام اڈانی گروپ کو ملا تو ایک امریکی ادارے ہینڈن برگ ریسرچ نے اڈانی گروپ پر اربوں ڈالر کے فراڈ اور ٹیکس چوری کا الزام لگا دیا۔ راہول گاندھی نے اڈانی کے خلاف لوک سبھا میں 40منٹ کی تقریر میں ہینڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ میں لگائے گئے کے الزامات کا جواب مانگا۔ کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کچھ دن بعد حیفہ پورٹ کا انتظام اڈانی گروپ کے سپرد کرنے کی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں نیتن یاہو مہمان خصوصی تھے۔
اس موقع پر نیتن یاہو نے گو تم اڈانی سے ہینڈن برگ ریسرچ کے الزامات کے بارے میں پوچھا۔ اڈانی نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ نیتن یاہو اور اڈانی کے درمیان گفتگو کو بہت سے لوگ سُن رہے تھے۔ اس گفتگو کی تفصیل ایک روسی جریدے سپٹنیک SPUTNIK کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اڈانی گروپ پر حملہ اسرائیل پر حملہ ہے کیونکہ اڈانی گروپ کے کمزور ہونے سے اسرائیل کے مفادات پر زد پڑے گی۔ اسکے بعد نیتن یاہو نے اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کو حکم دیا کہ وہ اڈانی گروپ پر حملہ کرنے والوں کو سبق سکھائے۔ کچھ عرصے کے بعد ہینڈن برگ ریسرچ کے خلاف مختلف امریکی عدالتوں میں مقدمات دائر ہوگئے۔
اڈانی پر فراڈ کا الزام لگانے والوں کے اپنے خلاف فراڈ کی تحقیقات شروع ہوگئیں اور تنگ آکر جنوری 2025ء میں ہینڈن برگ ریسرچ کو بند کر دیا گیا۔ روسی جریدے کی رپورٹ کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ نیتن یاہو کےحکم پر موساد نے راہول گاندھی سمیت کانگریس کے کئی رہنمائوں کی ڈیجیٹل نگرانی شروع کردی اور اُن تمام افراد کا سراغ لگا لیا جو راہول گاندھی کو گوتم اڈانی کے خلاف انفارمیشن فراہم کر رہے تھے۔ اب اڈانی مطمئن تھا کہ نیتن یاہو نے اُس کے دشمنوں کا قلع قمع کر دیا ہے لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہی نیتن یاہو اُسکی تباہی کا باعث بننے والا ہے۔
13جون 2025ء کو نیتن یاہو نے ایران پر حملے کا اعلان کیا تو اڈانی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایران کے میزائل حیفہ تک پہنچ جائیں گے۔ وہ حیدرآباد میں جو ڈرون اور میزائل تیار کررہا تھا۔ انہوں نے ایران میں خوب تباہی پھیلائی۔ جب ایران کے میزائل تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے تو اڈانی کے ہاتھ پائوں پھولنے لگے۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ جس طرح اڈانی کی فیکٹری میں تیار ہونے والے ڈرونز اور میزائلوں نے لبنان سے غزہ تک اپنی دھاک بٹھا دی تھی تو ایران میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ یہ خیال غلط نکلا۔ ایران کا نقصان تو بہت ہوا لیکن ایران کے میزائلوں نے حیفہ کی بندرگاہ کو ملبے کا ایک ڈھیر بنا دیا اور آج جب اس ملبے کی تصویروں کا غزہ کے ملبے سے تقابل کیا جاتا ہے تو آنکھوں کو زیادہ فرق نظرنہیں آتا۔ ایران کے میزائلوں نے اسرائیل میں ایسی افراتفری پھیلائی کہ ہزاروں اسرائیلی اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے۔
ایسے میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوست نیتن یاہو کی مدد کو پہنچے۔ انہوں نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا اعلان کیا اور اسکے بعد اسرائیل اور ایران میں سیز فائر کا اعلان بھی کردیا۔ اب امریکی میڈیا میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ٹرمپ کے حکم پر کئے جانیوالے حملوں سے ایران کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ ہو سکا یا نہیں؟ ٹرمپ نے یہ سوال اٹھانے والے سی این این اور نیو یارک ٹائمز کو جھوٹا قرار دیدیا ہے لیکن وہ اسرائیل کو مزید تباہی سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ اسرائیل اور ایران میں وقتی طور پر جنگ بند ہو گئی ہے لیکن نیتن یاہو چین سے نہیں بیٹھے گا۔ وہ ایران پر دوبارہ حملہ کریگا کیونکہ ایران دراصل گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نیتن یاہو اور مودی نے اڈانی گروپ کے ساتھ مل کر حیدرآباد میں ڈرون اور میزائل بنانے کی جو فیکٹری قائم کی تھے اس کا اسلحہ صرف ایران نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا۔ پچھلے دو سال میں بھارت نے اسرائیل سے چار ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے۔
یہ اسلحہ چین کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا کیونکہ پاکستان اکھنڈ بھارت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں جیو پولیٹکس کے ڈائریکٹر مائر ماسری نے تو سوشل میڈیا پر اعلان کردیا ہے کہ ایران کے بعد اسرائیل کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ 24جون 2025ء کو ’’ماڈرن ڈپلومیسی‘‘میں مائر ماسری کے حوالے سے جو تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ کروز میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعہ اسرائیل کو ناصرف پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم کرنی ہے بلکہ بھارت کے ساتھ مل کر سندھ کو پنجاب سے علیحدہ کرنا ہے اور آزاد کشمیر پر قبضہ کر کے چین کو گوادر سے کاٹنا ہے۔ احمد آباد کے بزنس مین گوتم اڈانی کا حیفہ میں کاروبار گو تباہ ہو گیا لیکن حیدرآباد میں اُس کی فیکٹری ابھی محفوظ ہے ۔ جب تک یہ فیکٹری محفوظ ہے تب تک پاکستان غیرمحفوظ ہے۔ یہ فیکٹری غزہ سے ایران تک تباہی پھیلا چکی ہے۔ اس فیکٹری کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔