24 جون ، 2025
اسرائیل، امریکا اور ایران کے درمیان 12 روزہ لڑائی کے بعد جنگ بندی ہوئی ہے تو سوال پیدا ہوا ہے کہ حقیقی معنوں میں اس کا فاتح کون ہے؟
امریکا اور اسرائیل کے لحاظ سے دیکھا جائے توبظاہر ایران کیخلاف یہی دونوں ملک فاتح ہیں کیونکہ جو بنیاد بنا کر ایران پرحملے کیے گئے تھے وہ ایران کا ایٹمی پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے بارے میں مغربی ممالک کو خدشات تھے کہ وہ کسی بھی لمحے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے اوراسی لیے ایران کے ایٹمی پروگرام کو برباد کرنا ضروری ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ایران پراسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی میں امریکا پہلے روز سے شامل تھا اور اسے محض ضرورت پڑنے پر اس جنگ میں کودنا تھا۔ کچھ روز اسرائیل کو ایران پر اس لیے بھی حملے کرنے دیے گئے تاکہ اسے احساس ہوجائے کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو نقصان پہنچانا تنہا اس کے بس کی بات نہیں۔
ایران پر اسرائیل نے حملوں کا آغاز فوجی قیادت اور نیوکلیئر سائنسدانوں پر حملے سے کیا تھا تاہم ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے میں بظاہر ناکامی ہوئی تواسرائیل کی عملی مدد کیلیے بلآخر امریکا میدان میں آیا اور ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرکے اسرائیلی وزیراعظم سے منوایا کہ امریکا کے بغیر یہ کام ناممکن تھا۔
اس دوران ایران نے میزائلوں اور ڈرونز سے پے در پے حملے کرکے اسرائیل کے کئی علاقوں کا نقشہ غزہ جیسا بنا ڈالا۔ یہ وہ بارہ دن کی لڑائی تھی جس میں اسرائیلی شہریوں نے بیشتر وقت شیلٹرز میں گزارا جس کی وجہ سے اموات میں غیرمعمولی کمی تو دیکھنے میں آئی مگر افراتفری واضح تھی۔
لڑائی میں تباہی اپنی جگہ، جنگ کے دوران امریکا اور اسرائیل اہداف بھی بدلتے رہے جو جنگ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کیلیے شروع کی گئی تھی اس میں رجیم چینج بھی شامل ہوگیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ایران کے عوام بھی قدامت پسند مذہبی حکومت کیخلاف ہیں، اس لیے زور دیا گیا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔
نیتجہ اس کے برعکس نکلا، ایران میں قوم پرستی کاجذبہ ابھرا اور لبرلز بھی قدامت پسندوں کے ساتھ جُڑ گئے جو مظاہرے ایرانی حکومت کیخلاف ہونے کا انتظار کیا جارہا تھا، وہ ایرانی حکومت کے حق میں ہوئے، امریکا اور اسرائیل کیخلاف آوازیں مضبوط ہوئیں۔
ایران میں حکومتی پالیسی کی حمایت بڑھی جبکہ اسرائیل کے بڑے میڈیا گروپس نے وزیراعظم نیتن یاہو کی پالیسی پر شدید تنقید کی اور کہا کہ دنیا میں کوئی بھی سمجھدار عوام ہوتی تو سات اکتوبر کے چند روز بعد ہی اپنی حکومت بدل ڈالتی۔ ہارٹز کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو ایران کیخلاف جنگ چھیڑ کر اسرائیل کیلیے خود ایران سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔
خود امریکی صدربھی اسرائیل سے ناخوش ہیں۔ جنگی امور سے متعلق ماہرین کا کہنا ہےکہ اسرائیل نے امریکا کو اس جنگ میں جھونکا مگر اصل ہدف یعنی ایرانی حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ پورا کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح صدر ٹرمپ جو امن کا سفیر کہلاتے تھے، انہیں بھی نیتن یاہو نے ایران جنگ میں شریک کرکے ان کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشان پیدا کردیے۔
اسرائیل کے سابق وزیردفاع ایویگڈور نے اس پوری صورتحال کا نچوڑ ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ ایران کےغیرمشروط ہتھیار ڈالنے کے بجائے، دنیا تھکا دینے والے مذاکرات میں داخل ہونے پر مجبور ہوگئی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کی حکومت نے ہار نہیں مانی۔ وہ بولے کہ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ زخمی شیرکو چھیڑنے سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں اور یہ بھی کہ اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو دو یاتین سالوں میں ایک اورجنگ ہوسکتی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار حسن نوریان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوران جنگ اللہ تعالی کی نصرت شامل رہی اور ایرانی قوم نے آپریشن بشارت فتح کو حقیقی کامیابی میں بدل دیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل پر ایران کی فتح کے کئی ٹھوس ثبوت ہیں۔ اول یہ کہ دشمن ممالک ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکام رہے۔ امریکا اور اسرائیل اپنا اہم ہدف یعنی ایران کا ایٹمی پروگرام بند کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ یہی نہیں ایران کے پاس موجود چار سو کلوگرام افزودہ یورینئیم کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جاسکا۔
ایرانی وزارت خارجہ میں سیاسی قونصلر نے کہا کہ ایران اب اپنی دفاعی صلاحیتیں پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنا رہا ہے اور مستقبل میں جنگ مسلط کی گئی تو اس سے کہیں زیادہ طاقت سے جواب دیا جائے گا۔
پاکستان میں طویل عرصے تک سفارتکاری انجام دینے والے حسن نوریان کا کہنا تھا کہ اگلی بار دشمن کو جاسوس نیٹ ورک بھی استعمال کرنے کا موقع نہیں ملےگا کیونکہ اس جنگ کے تجربات سے ایران نے بہت کچھ سیکھا ہے۔
حسن نوریان نے اس جنگ میں مقبوضہ علاقوں کی تباہی کی تمام تر ذمہ داری اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوپر عائد کی اور کہا کہ نتین یاہو کی بے لگام جارحیت پر انکی جواب دہی ہونی چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ نیتن یاہو کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاک بھارت جنگ کا موازنہ ایران اسرائیل جنگ سے کیا جائے تو بظاہر اسرائیل نے جنگ بندی کی کوشش کی اور امریکا اور قطر کی مدد سے اسے ممکن بنایا۔ ایران پہلے ہی یہ کہتا تھا کہ اس نے تین سو سال میں کبھی جنگ شروع ہی نہیں کی تاہم حق دفاع سے کبھی پیچھے بھی نہیں ہٹا۔
اسطرح بارہ روز میں امریکا اوراسرائیل نے اگر ایران سے جنگ بندی کی ہے تو ایران کے پاس یہ کہنے کا جواز ہے کہ وہ فاتح رہا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایران کیخلاف آخری جنگ ہے یا کسی اور بڑی جنگ سے پہلے وقفہ؟
شام میں بشارالاسد کی حکومت کیخلاف امریکا اور اسرائیل کی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک لمحے بشارالاسد پھر سے ابھرے تھے تاہم آخر کار انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔
اس جنگ بندی کےدوران ایران اپنا دفاع، روس اور چین سے تعلقات کس قدر مضبوط بناتا ہے اور ان سے کس نوعیت کی ڈیل کرتا ہے، شاید یہ طے کرے کہ اگلی جنگ میں اصل فاتح کون ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔