15 دسمبر ، 2016
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا اسمبلی میں پھر ٹاکراہوا،آغاز شور شرابے اور ہنگامے سے ہوا،تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کی جانب سے اسپیکر ایاز صادق کواسپیکر نہ کہنے پر حکومتی ارکان کی جانب سے نعرے بازی ہوئی۔
ایک طرف سے عابد شیر علی نے نعرے لگائے تو دوسری طرف سے شیریں مزاری نے انہیں جواب دیا۔
اسپیکر نے عابد شیر علی کو چپ کرانے کی کوشش کی،شیخ روحیل اصغر کو نشست پر بیٹھنے کی ہدایت کی،جمشید دستی کو آستینیں نیچے کرنے اور بٹن بند کرنے کا حکم دے دیا۔
قومی اسمبلی کا آج ہونے والا اجلاس ایک بار پھر مچھلی بازار بن گیا، اجلاس شروع ہونے سے پہلے گیلریوں میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
شیڈول کےمطابق قومی اسمبلی کا اجلاس شام چار بجے شروع ہونا تھا جو دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا،قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز شور شرابے کی وجہ سے ملتوی کیا گیا تھا۔
اسمبلی کا ماحول آج پھر خوشگوار نہ رہ سکا، وہاں پھر شور شراباہوا، اسپیکر ایاز صادق نے عابد شیر علی کو چپ کرانے کی کوشش بھی کی۔
قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کو پہلے بات کرنے کا موقع دیا گیا جس کے بعد اسپیکر نے پوائنٹ آف آرڈر پر شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کی دعوت دیدی۔
شاہ محمود قریشی نے خطاب شروع کیا تو ان کی تقریر کے دوران بار بار سرکاری بینچز سے مداخلت ہوتی رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک استحقاق کو مسترد کیوں کیاگیا؟ وزیراعظم کے پارلیمنٹ کے بیان اور عدالت کے بیان میں تضاد پر تحریک استحقاق پیش کی۔
شاہ محمودقریشی نے سعد رفیق سے غنڈہ کہنے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کل بھی اور آج بھی غنڈہ کہا گیا۔
انہوں نے سعد رفیق سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو غنڈہ کہنے کا حق نہیں دے سکتا، سعد رفیق صاحب آپ معافی مانگیے اور بات کیجیے، آپ نے معافی نہ مانگی تو بولنے نہیں دیں گے۔
شاہ محمود قریشی نے اسپیکر قومی اسمبلی کو اسپیکر کے بجائے ایاز صادق کہہ کر پکارا، انہوں نے کہا کہ یہ نوبت کیوں آئی کہ مجھے اسپیکر کے بجائے جناب ایاز صادق کہنا پڑا،اسپیکر کرسی پر ہے تو ن لیگ کا جیالا نہیں بن سکتا، جیالا بننا ہے تو کرسی سے اتر کر نیچے آئیں، جو چاہیں بولیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر صاحب دو سوالات آپ کی خدمت میں لے کر آیاہوں، آپ سے درخواست تھی کہ 10منٹ دیے جائیں تو اپنا نکتہ تحریک استحقاق کی صورت میں پیش کروں گا، وزیراعظم کے پارلیمنٹ کے بیان اور عدالت کے بیان میں تضاد پر تحریک استحقاق پیش کی۔
شاہ محمودقریشی کا کہنا تھا کہ میں قوانین سے واقف ہوں، مجھے اس کرسی کے تقدس کا علم ہے، پہلی مرتبہ اس پارلیمنٹ میں نہیں آیا، میں 80 لاکھ ووٹرز کا ترجمان ہوں، اسپیکر سے توقع کرتا ہوں کہ انہوں نےمیری آواز پر توجہ دینی ہے، میں رولز آف بزنس سے واقف ہوں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں نے اسپیکر سے کہا کہ آپ نے بندکمرے میں اندھیرے میں رولنگ دی، جس پر اسپیکر ایاز صادق نے جواب دیا کہ شاہ صاحب لائٹیں جل رہی تھیں۔
اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ میرے پاس ارکان کو دینے کے لیے کچھ نہیں سوائے عزت کے، استعفے منظور نہ کرنے پر مجھ پر خواجہ آصف، جے یوآئی اور سب نے تنقید کی،آئین کی مقدس کتاب کو زمین پر پھینکے جانے سے افسوس ہوا، اس کی ریکارڈنگ دکھا سکتا ہوں۔
ایک موقع پر اسپیکر نے جمشید دستی کو بھی شاہ محمود قریشی کے خطاب میں رکاوٹ ڈالنے سے روک دیا، جمشید دستی نے آستینیں چڑھائیں تو اسپیکر نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے ایکشن لینے پر مجبور نہ کریں۔‘‘