19 دسمبر ، 2016
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کمیشن سے کوئی ادارہ تعاون نہیں کررہا۔اس کےباجود محدود وسائل کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں، کسی ادارے کا جتنا بھی بڑا افسر ملوث پایا گیا، اس کےخلاف کارورائی تجویز کریں گے۔
ایبٹ آباد کمیشن اور لاپتہ افرادکمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبا ل نےقائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ میں بتایا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظرعام پرآنی چاہئے، اگر یہ بتا دیا کہ ایبٹ آباد کمپاؤنڈ میں اسامہ تھا یا نہیں تو باقی کچھ نہیں بچے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئراور کرنل سطح کے افسران کمیشن کی معاونت کرتے ہیں،ابھی تک آئی ایس آئی کے سربراہ کو نہیں بلایا،جس ادارے سے متعلق شکایت آتی ہے ، اس ادارے کو طلب کیا جاتاہے، لاپتہ افراد کے معاملے میں پاکستان مخالف ایجنسیاں بھی ملوث ہیں، کمیشن اپنی سفارشات جلد وزیراعظم کوارسال کرےگا ۔
کمیشن سربراہ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان میں موجود ہے، بلوچستان کے اس وقت 96 کیسز ہیں، آزاد کشمیر کے 11 اور گلگت بلتستان کے 4 جبکہ خیبر پختونخواہ کے 654 افراد لاپتہ ہیں۔ دنیا کے دیگرممالک میں بھی لاپتہ افراد کی حالت پاکستان جیسی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہا ہے کہ وزیرِداخلہ چوہدری نثارنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بڑا تعاون کیا ہے۔جب ایبٹ آباد کمیشن بنا تو حکومت نے کمیشن کو 5 کروڑ روپے دیے۔