بلاگ
24 دسمبر ، 2016

سید انور قدوائی...............چند یادیں

سید انور قدوائی...............چند یادیں

ابھی ابھی اس شخص کو لحد میں لیٹا دیکھا جو کل اسی وقت زندگی سے بھرپور تھا اور اپنے مخصوص باوقار انداز میں گفتگو کررہا تھا، دانائے راز کیا خوب فرما گئے ہیں۔

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی

دسمبر کا مہینہ جاتے جاتے بہت نامور لوگوں کو اپنے ساتھ لے جانے میں کمال شہرت رکھتا ہے، اس مرتبہ دسمبر جاتا جاتا سید انور قدوائی کا نام گرامی بھی اپنے ساتھ ہمیشہ کیلئے نتھی کر گیا،بچپن سے ہی سے میں قدوائی صاحب کو پڑھ رہا تھا، پھر تقریباً چودہ برس روزنامہ ’جنگ‘ میں ساتھ رہا۔

لاہور میں میرا بچپن علامہ اقبال ٹاؤن میں گزرا ، بڑے بڑے ادیب اور صحافی مظفر وارثی، ڈاکٹر سلیم اختر، عطاالحق قاسمی، اسلم کمال، ڈاکٹر اے آر خالد، عزیز اثری، امجد اسلام امجد اور دیگر سے صبح و شام کہیں نہ کہیں ملاقات ہو جاتی تھی، سید انور قدوائی صاحب ان ہی میں سے ایک تھے۔

ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ شفیق مرزا صاحب ساتھ چھوڑ گئے اور ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں روزنامہ ’جنگ‘ کے ادراتی شعبے کے روح رواں سید انور قدوائی صاحب بھی اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے، روزنامہ ’جنگ‘ میں یادوں کا ایک طویل سلسلہ ان کے ساتھ وابستہ ہے، ان کا ذکر اللہ کی رحمت سے اپنی کسی کتاب میں کروں گا لیکن چند روز قبل ہونے والی ملاقات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو آخری ثابت ہوئی۔

روزنامہ ’جنگ‘ اور لاہور پریس کلب کے درمیان میں واقع ایک ہوٹل میں احباب نے مظہر برلاس کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام کر رکھا تھا، جیو سے وابستہ ہمارے دوست ضیاء الحق نقشبندی نے بڑے اصرار سے دعوت دی تو میں اپنے بیٹے احمد کے ہمراہ تقریب میں پہنچ گیا، میرے احباب میری اس عادت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میں تقاریب میں بہت ہی کم جاتا ہوں لیکن اس تقریب میں میرا دل کہہ رہا تھا ضرور جانا چاہیے اور میں حضرت علامہ کی ہدایت کے مطابق کبھی کبھی دل کی بھی سن لیتا ہوں۔

اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

تقریب میں سید انور قدوائی صاحب مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے، ان کے علاوہ بھی سینئر صحافیوں اور کالم نویسوں کی بڑی تعداد موجود تھی، اس تقریب میں مجھ خاکسار کو بھی اظہار خیال کا موقع ملا اور میں نے محسوس کیا کہ جناب قدوائی توجہ سے مجھے سن رہے ہیں، ایک عجیب بات میں محسوس کر رہا تھا کہ سید صاحب کے انداز میں کوئی غیر معمولی بات تھی اور میں تقریب کے بعد ان سے ملنا چاہ رہا تھا اور احمد کو بھی ملوانا چاہتا تھا،میں نے خصوصی طور پر ان کے ہمراہ تصویر بھی بنوائی جو احمد نے لی،میں نے احمد کو کہا کہ ان انکل کے ساتھ میری تصویر ضرور لے لو پتہ نہیں ان سے پھر ملاقات ہو کہ نہ ہو اور میرے دل کے خدشات درست ثابت ہوئے اور یہ ملاقات آخری بن گئی۔

’جنگ‘ کے ایک پرانےساتھی نے بتایا کہ قدوائی صاحب کل معمول سے زیادہ چہک رہے تھے، ان کی ہنسی میں کوئی غیر معمولی پن تھا، اس دن ظہرانے میں پاکستان اور تحریک پاکستان کے حوالے سے بڑی جذباتی گفتگو کی اور کہا کہ وضع داری اور برداشت ہمارے معاشرے سے رخصت ہو گئی ہے۔

مزید بتایا کہ ہمارا تعلق ایک نواب گھرانے سے ہے اور ہمیں اپنے بچپن میں ملازمین کو بھی تم کہنے کی اجازت نہ تھی، انہیں آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور بہت تعظیم کرتے تھے لیکن آج کل ہماری شاندار تہذیبی روایات ماضی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں، بزرگوں کا مذاق اڑانا گویا ایک فیشن بن گیا ہے،انہوں نے اس کا ذمہ دار میڈیا کو قرار دیا۔

پاکستا ن کے حوالے سے انہوں نے ان قربانیوں کا ذکر کیا جو اس کی بنیادوں میں دفن ہیں اور کہا کہ پاکستان کی ساری تاریخ کا میں گواہ ہوں، افسوس پاکستان کی تاریخ کا ایک اور گواہ منوں مٹی تلے ہمیشہ کے دفن ہو گیا۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائےگراں مایہ کیا کئے