بلاگ
07 جنوری ، 2017

منشیات زہر ہے ، منشیات موت ہے

منشیات زہر ہے ، منشیات موت ہے

 

ویب ڈیسک رپورٹ
منشیات زہر ہے ، منشیات موت ہے ، منشیات کا استعمال جرم ہے ، منشیات کا کاروبار کرنے والے موت کے سوداگر ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے بلند و بانگ دعوے سن سن کر کان پک گئے لیکن موت کایہ گھناؤنا کاروبار نہ رکنا تھا نہ رکا۔ اور اب ہوتے ہوتے یہ آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ۔

ایوان اقتدار میں براجمان مراعت یافتہ افراد کو شاید خیال آیا اور قانون حرکت میں آیا۔ اسلام آباد سے منشیات کا دھندہ کرنے والے گروہ کے سرغنہ کو پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس وقت جب یہ لعنت اسکولوں اور کالجوں کے معصوم طالب علموں کی رگوں میں سرائیت کر گئی۔

’ دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آ تو گئے ‘
ارباب اختیار کے علم میں آیا کہ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال اورخرید وفروخت کے واقعات بڑھتے جارہےہیں ، یہی نہیں چند روز پہلے لاہورمیں تین افراد تعلیمی اداروں کےباہر منشیات فروخت کرتے ہوئے پکڑے بھی گئےتھے جبکہ گزشتہ ماہ نجی یونیورسٹی کا طالب علم نشے کی زیادتی سے جان گنوابیٹھاتھا۔

پولیس کے مطابق چارجنوری کو لاہورکے مختلف تعلیمی اداروں میں منشیات فروخت کرنے کے الزام میں تین افراد کو دھر لیا گیا ۔ مبینہ ملزمان عظیم ، معید بٹ اورحسن سے منشیات بھی برآمد کرلی گئی ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ملزمان تعلیمی اداروں کےباہر طلبہ کو منشیات فروخت کرتےتھے۔ 13 دسمبر کو لاہورکے پوش علاقے ڈیفنس کی نجی یونیورسٹی کا طالب علم ہاسٹل میں مردہ پایا گیا ۔

پولیس نے اس کے کمرے کی تلاشی لی تو وہاں سے سگریٹ اوردیگر اشیاء اپنی تحویل میں لے لیں ۔ طالب علم کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آئی تو انکشاف ہوا کہ اس کی موت نشے کی زیادتی کےباعث ہوئی ہے۔

اور یوں بات آگے بڑھی تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں طلبا و طالبات کو منشیات کا عادی بنائے جانے کا خوفناک انکشاف ہوا ہے ۔ اب تک غریب کے بچے اس لعنت کا شکار تھے وہ تو دیسی طور پر تیار کی جانے والی منشیات استعمال کرتے تھے جس کے فروخت کرنے والے پوش علاقوں میں آرام دہ زندگی گزار رہے تھے ۔۔ لیکن جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی وہاں دو سے تین ہزار روپے میں امپورٹڈ منشیات بچوں کو تعلیمی اداروں میں فراہم کی جا رہی ہیں ۔

اور تعلیمی ادارے بھی کیسے کیسے ، قائداعظم یونیورسٹی، اقرا یونیورسٹی، نسٹ ، کامسیٹس اور رُوٹس اسکول کوئی ادارہ منشیات کی لعنت سے محفوظ نہیں ۔ اب ان درسگاہوں میں دھڑلے سے کھلے عام منشیات کا کاروبار کرنے والے گروہ کا سرغنہ پولیس نے رنگے ہاتھوں پکڑنے کا دعوۍ کیا ہے ۔۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران معروف تعلیمی اداروں میں موت کا کاروبار کرنے والے گیارہ افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔

خوفناک بات یہ ہے کہ نشے کی لت نے ان معصوم طلبہ کو بھی اس دھندے میں ملوث کر دیا اور منشیات کے عادی طلبا پیسوں کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر اپنے دوستوں کو بھی منشیات فروخت کر کے نشے کا عادی بنا رہے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بار بار نوٹس لیا تو اربوں روپے کا بجٹ لینے والے ادارے اینٹی نارکاٹیکس فورس کو بھی ہوش آ گیا۔

حیرت اس بات پر ہے کہ اگر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھی اس گھناؤنے کاروبار کو بند کروانے کے لیے بار بار کہنے کی ضرورت پڑے تو قوم کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مجرمان اتنے طاقتور ہیں جواب تلخ لیکن سچ ہاںوفاقی دارالحکومت میں ہوتا ہے موت کا کاروبارکسی گلی میں نہیں، کونے میں نہیں، پل کے نیچے نہیں، کھنڈرات میں نہیں۔۔ بلکہ معروف تعلیمی اداروں میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میںجہاں ملک کے مراعات یافتہ طبقے کے نونہالوں کو مستقبل کے معماروں کو اس کلاس کے بچوں کو جنہیں ان کے والدین بڑا آدمی بنانا چاہتے ہیں انہیں منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔

یہ انکشاف تو ہوا تھا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میںمگر ان کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود موت کے سوداگروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی مگر آج اچانک اینٹی نارکاٹیکس فورس کو خیال آیا اور وہ قوم کے نوجوانوں اور مستقبل کے دشمنوں کے گروہ کے خلاف ایکشن میں آئی ، اس فورس نے چرس سمیت دیگر مہلک منشیات اسلام آباد کی یونیورسٹیز اور کالجز میں پہنچانے والے نیٹ ورک کا سرغنہ پکڑ کر میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔

ہوش اڑا دینے والے انکشافات کے مطابق یہ سپلائر گروپ با آسانی اسلام آباد کی معروف درسگاہوں ،قائداعظم یونیورسٹی، اقراء یونیورسٹی، نسٹ یونیورسٹی، کامسیٹ یونیورسٹی اور روٹس اسکول سمیت نہ جانے کتنے اداروں میں یہ زہر پھیلا رہا ہے اورطلبہ و طالبات میں ہی سے کچھ اس زہر کو فروخت کرنے والے ایجنٹوں کے آلہ کار ہیں اور وہ منشیات خریدتے اور بیچتے ہیں۔اینٹی نارکوٹیکس فورس نے ایک ماہ میں وفاقی دارالحکومت کی یونیورسٹیوں میں چھ آپریشن کیے جس میںمنشیات سپلائی کرنے والے 11 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ۔ میڈیا کے سامنے پیش کیا جانے والا شخص وحید علی بھی ایسے ہی افراد میں شامل تھا جن کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا۔

ملزم وحید علی نے بتایا کہ لڑکے اور لڑکیاں اس سے منشیات لیتے تھے، اسٹرپ خریدتے تھے اس کے گاہکوں میں 23 سے 30 سال تک کے نوجوان تھے جو نشہ آور اشیا خریدتے تھے۔

ملزم وحید علی نے مزید انکشاف کیا کہ اسلام آباد کی یونیورسٹیوں اور اسکولوں کے طلباء اس سے امپورٹڈ منشیات ویڈ، ایل ایس ڈی اسٹرپس اور لاٹرز وغیرہ خریدتے ہیں۔ ملزم کو جس وقت گرفتار کیا گیا اس وقت اس سے ایک لاکھ 53 ہزار روپے مالیت کی منشیات کی پڑیاں برآمد ہوئیں ۔

اینٹی نارکوٹیکس فورس کے مطابق خریدار طلباء کو ایک ویڈ کا ٹوکن 3300 روپے جبکہ ایک لاٹر 2000روپے میں فروخت کیا جاتا ہے۔۔

بریگیڈیئر حماد نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بیو پاری وفاقی دارالحکومت کی درسگاہوں میں منشیات فروخت کرتے ہیں اور اس لعنت کا شکار طلباء پیسوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنے مزید دوستوں کو اس نشے کا عادی بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ تو اس کہانی کا آغاز ہے اور یہ حقائق آٹے میں نمک کے برابر ہیں، پاکستان کے ہر صوبے اور اس کے ہر شہر کی جامعات اور دیگر تعلیمی ادارے اس لعنت کا شکار ہیں اور اگر سنجیدگی سے ان موت کے سوداگروں کے خلاف بھرپور کارروائی نہیں کی گئی تو ہمارے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

لیکن کیا منشیات کے اس زہر کو پھیلنے سے روکنے کی ذمے داری صرف حکومتی اداروں پر عائد ہوتی ہے؟؟ کیا ان بچوں کے والدین کی کوئی غلطی نہیں کوئی ذمے داری نہیں اور ان کا اس برائی کے پھیلانے میں کوئی کردار نہیں ہے ؟؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ان طلبہ کے والدین اپنے بچوں کی حرکات اور رویہ پر نگاہ رکھتے تو نا صرف ان کے بچے اس لعنت سے محفوظ رہتے بلکہ دوسروں کے بچے بھی۔ پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کا یہ المیہ ہے کہ ان میں خاندان کا ہر شخص اپنی دھن اور اپنے دوستوں میں مگن ہے جہاں بڑے خود بچوں کے ساتھ یا ان کے سامنے شراب نوشی اور جوئے سمیت دیگر برائیاں کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ بچے کہاں جاتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں ۔ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں اس کا کسی کو علم نہیں ۔ اگر معلوم ہو بھی جائے تو بچوں کو سمجھانے اور روکنے کی اخلاقی جرات کہاں سے آئے ۔۔ آخر بڑے بھی تو ایسی ہی لت کا شکار ہیں ۔ وہ برائی پر فخر اور روک ٹوک کو دقیانوسی سوچ قرار دیتے ہیں ۔۔ غلط طریقوں سے حاصل کی گئی یا کمائی گئی دولت اور لوٹ کھسوٹ کو فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں ۔۔

اگر معاشرے سے نشے سمیت دیگر برائیوں کا خاتمہ کرنا ہے تو سب کو مل کر اپنی اپنی ذمے داری کا احساس اور مظاہرہ کرنا ہو گا۔۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور خداناخواستہ ایک نسل تباہ ہوجائے ۔