18 فروری ، 2017
معروف صوفی بزرگ لعل شہباز قلندرؒ کے مزار میں ہونے والے خودکش دھماکے میں درجنوں معصوم بچے، خواتین، مرد اور بزرگ شہید ہو گئے، دھماکا اتنا شدید تھا کہ ایک لمحے میں ہنستے بستے کئی گھرانے غم اور الم کی گہرائیوں میں ڈوب گئے، کئی زائرین اپنی جان سے گئے اور کئی زخموں سے ایسے چور ہوئے کہ اب ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔
سیکیورٹی کی کوتاہی ایک طرف، المیہ یہ ہے کہ اس دھماکے میں شہید اور معذور ہونے والے کئی افراد کو بچایا جا سکتا تھا اگروہاں نزدیک کہیں مناسب طبی سہولتوں کا انتظام ہوتا، یعنی ایمبولینس سروس اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی صلاحیت سے لیس ایک مناسب اسپتال ہونا چاہیے تھا، اگر ایسا نہیں بھی تھا تو کم از کم جو بھی سہولت موجود تھی وہاں تعینات عملہ اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتا، دوائیں ہوتیں، ایمبیولینس قابل استعمال ہوتیں۔
کیا یہ سب نا ممکن تھا؟ جی نہیں، تو پھر سہولت کیوں فراہم نہیں کی گئی؟ اس سوال کا جواب تلخ اورایک بھیانک حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے، وہ یہ کہ اس صوبے پر صدیوں سے حکومت کرنے والی جماعت عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان تو کیا دیتی اس نے سندھ کے باسیوں کے لیے انتہائی ضروری سہولتوں کی فراہمی پر بھی کوئی توجہ نہیں دی اور دیتی بھی کیسے، جس کو بھی اقتدار ملا اس نے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کے لیے حکومتی خزانے کوبے دردی سے اڑایا، اقتدار میں کون تھا یہ سب جانتے ہیں، وزارت کے منصب پر فائز ہونے والے کیا تھے اور کیا ہو گئے، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور طرفہ تماشہ یہ کہ اس تمام صورت حال پر کسی کو ندامت اور شرمندگی تو کیا افسوس بھی نہیں۔
ڈھٹائی اور بد تمیزی کی انتہا تو یہ ہے کہ وہ سوال پوچھنے والے کو ہی برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں،اس کی حالیہ مثال قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا ’جیو نیوز‘ کے صحافی مکیش روپیتا کے سوال کا نہایت بے رحمی سے دیا جانے والا جواب ہے، جب مکیش روپیتا نے جب شہیدوں کے جسمانی اعضاء کی سیہون کے گندے نالے سے ملنے کی طرف شاہ صاحب کی توجہ دلائی تو انہوں نے نہایت غصے سے کہا ’’اس ہیپ ہیزرڈ Haphazard میں یہ چیزیں اڑ کر باہر گئی ہیں، دروازوں سے‘‘ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، شاہ صاحب نے صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ بات سمجھتے نہیں ہیں، سوال کرنا آپ کو آتا نہیں ہے، میں نے کہا کہ یہ اڑ کر آکر گئی ہیں، دروازوں سے کسی گندے نالے میں گر گئی ہوں گی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس میں سندھ اور وفاقی حکومت کا قصور نہیں کہ اٹھا کر نالے میں ڈال دیا‘‘ اس پر بھی جب شاہ صاحب کا غصہ نا تھما تو مکیش روپیتاسے بولے ’’ سوال کرنا، ہی سیکھو‘‘۔
جب صحافیوں سے مخاطب ہونے کا یہ انداز ہو تو پھر بےچاری عوام کے لیے لاچاری سی لاچاری اور بے بسی سی بے بسی ہے، ان کے لیے تو سانحے کے بعد سانحہ یہ ہوا کہ صوبے کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنے ہی لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا شروع کر دیا، عوام نے جنہیں اپنے ووٹ سے ایوانوں میں پہنچایا وہی سیاسی قائدین سپاٹ چہروں، کھوکھلے لفظوں اور ’میں نہ مانوں‘ کی تکرار پر اتر آئے، خورشید شاہ نے انسانی المیے کو بھی شاید سیاسی رسہ کشی کا کھیل سمجھ لیا، دھماکے میں جان سے گزرنے والوں کے کچھ اعضاء آج کچرے کے ڈھیر کے ساتھ گندے نالے میں پھینک دیے گئے، عوام نے دہائی دی، میڈیا نے آواز اٹھائی تو شاہ صاحب کی انہونی منطق نے اس اندھوناک واقعے کے نئے معنی آشکار کر دیے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کیا شاہ صاحب کوعلم نہیں تھا کہ صوبے کا بد ترین خودکش دھماکا لعل شہباز قلندرؒ کے مزار کے اندر ہوا تھا اور قلندر کے مزار کی چھت کاغذ یا ٹین کی نہیں بلکہ مضبوط کنکریٹ کی ہے اور سلامت ہے، پھر یہ بھی کہ گندا نالا مزار سے آدھے کلومیٹر دور ہے اور اتنے فاصلے تک کوئی بھی شے اڑ کر تو نہیں جاسکتی لیکن وہاں پھینکی ضرور جاسکتی ہے، شاہ صاحب آپ نے تو جرم کو غلطی بھی ماننے سے انکار کردیا۔
ہم نے یہ مان لیا کہ غلطی صوبائی اور وفاقی حکومت کی نہیں ہے لیکن جرم ضلعی انتظامیہ کا تو ہے، آپ نے تو جو کہنا سننا تھا وہ کہہ سنا دیا،لیکن نااہلی اور انتظامیہ کی جرم جیسی کوتاہی مراد علی شاہ کے دل پر جاکر لگی اور انہوں نے انتظامیہ کو کھری کھری سنادیں، بلکہ ذمے داروں کے تعین کا حکم دیتے ہوئے یہاں تک وارننگ دے دی کہ ’’وہ انہیں مزید تکلیف میں نہ ڈالیں ورنہ خود تکلیف میں آجائیں گے‘‘۔
رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی نے وزیر اعظم کی جانب سے متاثرین کے لیے کسی قسم کی مالی امداد کا اعلان نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا، گو کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں لگائی جا سکتی لیکن شہیداء کے لواحقین کے آنسو پوچھنے کا باعث ضرور ہوتی ہے، ساتھ ہی زخمی اور معذور ہونے والوں کی داد رسی بھی ہو جاتی ہے کیوں کے بارود کے زخم بھرنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر سے پورا پاکستان متاثر ہوا ہے، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خوا اور بلوچستان سمیت قبائلی علاقوں میں بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا، ایسی صورت حال میں سیاسی جماعتوں کو پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے ایک قوم کی حیثیت سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سیکیورٹی اداروں کا ساتھ دینا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ہی فرائض سے کوتاہی برتنے والوں کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے تاکہ آئندہ انسانی جانوں کے نقصان کو کم کیا جا سکے۔
سیہون کا دورہ کرنے والے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جناب قائم علی شاہ جب صوبے میں طبی سہولتوں کی فراہمی میں زمین اور آسمان ایک کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کا تذکرہ کر رہے تھے تو اسی دوران متاثرین میں سے چند نے اپنے زخمیوں کے نامناسب علاج کی شکایت کی جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ حسب سابق چلے گئے۔
میں ایک طویل عرصے تک کرائم رپورٹنگ کرتا رہا ہوں اور اپنی پوری صحافتی زندگی میں کبھی ایسا نہیں دیکھا اور نہ ہی سنا کہ دھماکے کے نتیجے میں انسانی اعضاء آدھا کلومیٹر اڑ کر دور جاگرے ہوں، دھماکے کے بعد خودکش حملہ آور کے اعضاء کو 15سے 20فٹ دور گرتے دیکھا، دھماکے کی زد میں آنے والے پہلے 4یا 5افراد کے اعضاء کو چند فٹ دور گرتے دیکھا ہے لیکن آدھا کلومیٹر تک نہیں۔
دھماکے میں شہید ہونے والے ہمارے ہی بہن بھائی اور بچے تھے، ہمیں کسی طرح سے بھی ان کی بے حرمتی اور تضحیک کرنے کی جسارت نہیں ہونی چاہئے، خورشید شاہ کے بیان کے مطابق تو ایسا لگتا ہے کہ دھماکے کے بعد انسانی اعضاء کو پر لگ گئے اور وہ اڑان بھر کر 5سو میٹر دور گندے نالے میں جاگرے۔
ہمیں جس طرح انسانوں کی تعظیم اور عزت کرنی چاہیے اسی طرح دنیا سے جانے والے شہداء اور ان کے جسمانی اعضاء کی بھی بے حرمتی نہیں کرنی چاہیے، ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہےکہ اس طرح بے حرمتی پر تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت سخت سزا ہے اور اس طرح ملک کا قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا، جیسے قبرستان میں مردے کی بے حرمتی کرنے پر مقدمات درج ہوئے اورملزمان کو گرفتار کیا گیا اسی طرح سیہون میں گندے نالے سے ملنے والے انسانی اعضاء کے ذمہ داروں کو بھی قرار واقعی سزا ملنی چائیے۔