09 اپریل ، 2025
آئیں اس لہولہان غزہ جہاں انسانیت شرما رہی ہے،جہاں اسرائیلی اور امریکی ریاستی دہشت گردی کی بدترین شکل میں عروج پر ہے۔ آپ کو ذرا تاریخ کے ان چند واقعات کی طرف لے جاتا ہوں جب دنیا دو بڑی سپر پاور میں بٹی ہوئی تھی امریکی بلاک اور کیمونسٹ بلاک۔
وہ سارے ملک جو آزادی فلسطین کےساتھ کھڑے تھے ان کا تعلق کیمونسٹ بلاک سے تھا اور پورے دائیں بازو والے کیمونسٹوں کو ختم کرنے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ کھڑے تھے۔ روس کو افغانستان میں شکست ہوئی اوروہ تقسیم ہوگیا تو دنیا میں عملی طور پر ’’ون پاور‘‘ رول نافذ { OL 8 } ہوگیا۔ ان تمام ممالک کو جہاں سے فلسطینی کاز کو حمایت ملتی تھی ختم کر دیئے گئے کیا لیبیا، کیا شام اور کیا لبنان اور آج فلسطین تنہا ہے۔
آخر ایسے میں ہمیں کیوں 1974کی اسلامی سربراہی کانفرنس یاد آتی ہے جب پہلی بار فلسطین ریاست کو تسلیم کیا گیا یاسر عرفات کو اور پی ایل او کی نمائندہ حیثیت کو مانا گیا اور وہ تھی ابتدا ایک آزاد اسلامک بلاک کی، وہ دور تھا تھرو ورلڈ اور غیر جانبدار تحریک کا جس میں سب سے توانا آواز تھی ذوالفقار علی بھٹو کی جو امریکہ اورمغربی طاقتوں کو قابل قبول نہیں تھی اور اسے راستے سے ہٹانے کے پلان کی ابتدا جسکی انتہا اس کی پھانسی پر ہوئی ساتھ ہی آنیوالےبرسوں میں وہ ساری طاقتور آوازیں شاہ فیصل، کرنل قذافی ، یاسر عرفات، حافظ الحمد اور دیگر کو ہلاک کر دیا گیا۔ اب اس میں کون کون شریک جرم رہا ہے جو زندہ ہیں وہ کم از کم شرمندہ تو ہوں۔
بھٹو کی کہانی ابھی نامکمل ہے کیونکہ خود اسکی جماعت آج اس فلسفےسے بہت دور چلی گئی ہے۔ بھٹو کی پھانسی محض ’’عدالتی قتل‘‘ نہیں تھا۔ فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کے ہاتھوں وقت کے آمر نے تو یہ کرنا ہی تھا جس کے پیچھے بدقسمتی سے مذہبی جماعتی، بہت سے دائیں بازو کے فلسفی اور صحافی بھی برابر کے شریک تھے جو اس آمر کے حق میں بیانیہ بنانے میں لگے تھے تو دوسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ اسکی پھانسی رکوانے کیلئے غیر ملکی خفیہ دورے کر رہے تھے۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی کہ پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات اور لیبیا کے کرنل قذافی اپنے کمانڈوز لاہور بھیج کر بھٹو کوجیل سے نکال کر باہر لے جانا چاہتے ہیں مگر بھٹو نے شکریہ کے ساتھ اس طرح کی رہائی سے معذرت کر لی۔‘‘
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا 1972-77ءتک کا دور امریکی معاہدوں سے نکلنے اور تھرڈ ورلڈ اور اسلامک بلاک بنانے کا دور تھا۔ عرب ممالک نے پہلے ہی تیل کی طاقت کا استعمال کر کے دنیا کو خبردار کر دیا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب مغرب اور امریکہ نے کیمونسٹ روس اور بائیں بازو کی لہر کو روکنے کیلئے دنیا بھر میں دائیں بازو کی قوتوں کو ساتھ ملایا۔ بھٹو کے اس ’’ذہن‘‘ کو بہت پہلےعالمی شہرت یافتہ فلاسفر Bertran Russecc نے پڑھ اور سمجھ لیا تھا۔
اگست 1966کو مشہور جریدہ ’’دی اکنا مسٹ‘‘ میں Ayub Rebal کے عنوان سے ایک مضمون چھپا تو انہوں نے اس کا جواب ان معنوں میں دیا ’’بھٹو کا سب سے بڑا گناہ مغرب کی نظر میں یہ ہے کہ وہ اپنےملک کیلئے ایک آزاد اور غیر جانبدار پالیسی بنانا چاہتا ہے اور امریکہ کیلئےیہ قابل قبول نہیں۔‘‘ 1977 میں جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا دیکھتے ہی دیکھتے بھٹو مخالف اتحاد تشکیل پا گیا جس میں مذہبی جماعتوں کے علاوہ بعض بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل تھیں الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بھر پور تحریک چلی جسکے نتیجہ میں بھٹو دوبارہ الیکشن پر تیار ہو گیا اور 4جولائی 1977ءکو معاہدہ طے پا گیا۔
مارشل لا کے 90روز میں الیکشن ہو جاتے تو نتیجہ تمام سروے کے مطابق بھٹو جیت جاتا، لہٰذا پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ لگوایا گیا۔ دائیں بازو کے بعض مدیروں اور صحافیوں نے جنرل ضیاء سے الیکشن ملتوی کرنے کا کہا۔ پھر الیکشن 1979ءمیں ہونے تھے مگر رپورٹس یہی تھیں کے پی پی پی جیت جائے گی۔ وہ پھانسی چڑھا تو یہ اہم باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
تاریخ اپنا فیصلہ خود کرتی ہے اور اس نے کیا نا صرف یہ کہ انہی جماعتوں کے بعض رہنماؤں نے بعد میں یہ اعتراف کیا کہ پھانسی کا فیصلہ اور حمایت کرنا غلط تھا۔ بلکہ برسوں بعد اعلیٰ عدلیہ نے بھی اسے ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دیا۔ آج سے کوئی دو سال پہلے پی پی پی کے سینئرر رہنما جناب کمال اظفر نے ایک نشست میں میرے سامنے پہلی بار انکشاف کیا کہ جنرل ضیاء کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ بھٹو نے اردان کے شاہ حسین کے دباؤ میں کیا۔ اس یقین کے ساتھ کے وہ اچھا انسان ہے۔ ’’میں اس وقت بھٹو صاحب کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں تھا جب ان کا فون آیا۔ بھٹو برابر والے کمرے میں چلے گئے جب باہر آئے تو پریشان سے لگ رہے تھے پوچھنے پر بتایا ضیاء سے سینئر سات اور جنرل تھے۔‘‘
دنیا بدل گئی اور ہم نے روس، ایران اور افغانستان میں ناقابل یقین تبدیلیاں رونما ہوتے دیکھیں۔ جہاد افغانستان بھی دیکھا اور ایرانی انقلاب بھی اور پھر مسلم امہ کو تقسیم در تقسیم ہوتےبھی۔ 9/11 کے بعد دنیا پھر تبدیل ہوئی اور ایک نیا ورلڈ آڈر سامنے آیا۔ القاعدہ، داعش، طالبان اور ان گنت شدت پسندوں اور دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور خود فرقہ واریت کے نام پر مساجد اور امام بارگاہیں غیر محفوظ ہو گئیں۔ ایسے میں فلسطین تنہا ہوگیا اور جو آج غزہ میں ہورہا ہے وہ شائد اب حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں کے پاس بھی جواب نہیں کیونکہ دنیا خاموش ہے یا اسرائیل کی حامی۔
آج فلسطین کے حق میں اور غزہ کانام لینا بھی مغربی دنیا میں جرم ہے۔ آزادی صحافت مغرب میں جتنی بے نقاب اس معاملےپرہوئی ہے تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی۔ امریکہ میں جمہوریت ہی ختم کر دی گئی اگر آپ غزہ کے ساتھ ہیں جس انداز میں طالب علموں کو حمایت کرنے پر ملک بدر کیا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ مگر اس سب کے باوجود مغرب میں جتنے بڑے مظاہرہ ہوئے ان کے مقابل پاکستان سمیت اسلامی عرب ممالک بے حسی کی منہ بولتی تصوبر ہیں۔
جماعت اسلامی کا اس حوالے سے مربوط تحریک چلانے کا عزم قابل تحسن ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں کا کردار اس حوالے سے باعث تشویش۔ کیا 25کروڑ کی آباد میں 50لاکھ افراد اسلام آباد میں ایک خاموش دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرا سکتے اور خدارا یہ جعلی ملین مارچ نا ہو۔
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگانے والے کبھی اسکے اصل فلسفہ کیساتھ کھڑے ہو کر، اس کی فلسطین والی پالیسی کیساتھ کھڑے ہو کر بھی دیکھیں چاہے امریکہ مخالف نعرہ نا لگائیں۔ آج بھٹو کے قاتل بھی زندہ ہیں اور ان کا بیانیہ بھی۔ غزہ لہولہان ہے اور ہماری خاموشی اس کی ذمہ دار ہے جس میں سر فہرست مسلم حکمران ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔