بلاگ
20 مئی ، 2017

بھارت کا شیطانیت کو شرماتا حیا سوز چہرہ

بھارت کا شیطانیت کو شرماتا حیا سوز چہرہ

خطے میں سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والے بھارت میں ماہرین سر جوڑ کے بیٹھ گئے ہیں کہ خواتین اور معصوم بچیوں کو آخر کس طرح وحشت زدہ بھارتی بھیڑیوں سے محفوظ رکھا جائے۔

اوّل تو حوّا کی بیٹیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کر دیا جاتا ہے، اس حوالے سے مانیکا گاندھی نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ہر روز 2ہزار بچیوں کو پیدائش سے پہلے ہی قتل کر دیا جاتا ہے یعنی 18لاکھ بچیاں ہر سال ختم کر دی جاتی ہیں اور ایسے واقعات بھی اس نام نہاد شائننگ انڈیا میں عام ہیں کہ بچی کو پیدائش کے فوراً بعد منہ پر تکیہ رکھ کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔

بھارت میں 10برس پہلے الٹرا ساؤنڈ کروانے پر پابندی لگا دی گئی، اس سے پہلے یہ بہت منافع بخش کاروبار تھا، جب شروع میں الٹرا ساؤنڈ مشین آئی تو اشتہار میں ترغیب دینے کے لیے کہا گیا کہ ’’آج چند ہزار خرچ کرو اور مستقبل میں لاکھوں کا جہیز بچاؤ‘‘۔

کاش بھارت کی سرکار ایٹم بموں کا ڈھیر لگانے اورمقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کو دبانے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کا بھی سوچ لے، بالی وڈ کی فلمیں گو بہت زیادہ پالشڈ ہوتی ہیں لیکن بھارت کے جنس زدہ چہرے کو بخوبی بےنقاب کرتی ہیں۔

گزشتہ ماہ ایک 10ماہ کی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس سے انسانیت تو ایک طرف شیطانیت بھی دہل گئی ہے۔

ہریانہ میں ایک لڑکی کو 7افراد نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد انتہائی بھیانک طریقے سے اس کا جسم پتھروں سے کچل دیا اور آوارہ کتوں نے اس کا جسم نوچ کھایا۔

بھارت کے دارالحکومت دہلی کو ریپ کیپیٹل کہا جاتا ہے، امیتابھ بچن بھی ایک انٹرویو میں بھارت کے اس شرمناک چہرے پر بات کرتے کرتے شرما گئے۔

سال 2012ء میں ریپ کیپٹل میں دن دہاڑے میڈیکل کی ایک 23 سالہ طالبہ کو بس میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس نے بھارتی معاشرے کی گھٹن کی قلعی کھول دی۔

یہ وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لڑکیوں کو زبردستی جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے، جہاں ہر دو منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے، جہاں کے دارلحکومت میں ہر روز 6لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے،جہاں مارچ 2015ء میں ایک 71 سالہ بزرگ نن کو 7افراد نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

جہاں اخلاقی گراوٹ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ چند ماہ قبل ایک نوجوان نیپالی دوشیزہ وحشی بھارتی درندوں کے چنگل سے بچ کر برہنہ دہلی کی سڑکوں پر نکل آئی اور لوگ اس کا تماشہ دیکھتے رہے اور اس کی ویڈیوز بناتے رہے،اس لڑکی نے پولیس کو بتایا کہ کئی دن تک اس کے ساتھ گینگ ریپ ہوتا رہا۔

بھارت میں اب کوئی خاتون محفوظ نہیں رہی، حال ہی میں ایک امریکی خاتون کو اس کے ہوٹل میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ایک اسرائیلی خاتون سے چلتی کار میں گینگ ریپ کیا گیا۔

اگست 2013ء میں دہلی میں ایک صحافی خاتون بھی اسی وحشت کی لپیٹ میں آئی، گزشتہ سال ایک خاتون وزیر نے بھی اس حوالے سے شکایت کی،ڈینگی کی ایک مریضہ سے اسپتال کے ڈاکٹروں نے گینگ ریپ کیا۔

یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے، جو نہیں ہوئے ان کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا،اخلاقی پستی کا عالم ملاحظہ کیجیے کہ ریپ کی ویڈیوز کو مہنگے داموں خریدنے کے حوالے سے بھارت سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2013ء میں بھارت میں 24923 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، ان میں سے 98 فیصد واقعات میں قریبی رشتہ دار ملوث تھے،اسی طرح 2015 ءمیں 34 ہزار کیس رپورٹ ہوئے۔

دو روز پہلے ہی بھارت میں ایک 10سالہ حاملہ بچی کو اسقاط حمل کروانے کی اجازت دی گئی ہے،رواں برس اپریل میں ایک جرمن خاتون سیاح کا گینگ ریپ کیا گیا جو دنیا بھر میں بھارتی معاشرے کی گندگی کی دہائیاں دیتی رہی۔

یہ اس بھارت کا مکروہ چہرہ ہے جو اپنے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے پاکستانی معاشرے پر ایک ثقافتی یلغار مسلط  کیے ہوئے ہے، ہمیں اب  ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور بھارت زدہ این جی اوز اور دانشوروں سے محتاط رہنے کی بھی۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)