23 جون ، 2017
وطن عزیز ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا ہے،کوئٹہ میں آئی جی آفس کے باہر اور پارا چنار بازار میں ہونے والے دھماکوں میں اب تک 38 افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔
ہم سیاست دانوں کی نااہلی کا رونا صبح و شام روتے رہتے ہیں لیکن جن اداروں کا کام ملک میں امن و امان کا قیام ہے اس قسم کے دھماکے ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔
کاش ہمارے پالیسی سازوں نے 1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان سے ہی کچھ سبق سیکھا ہوتا، آج روس جیسی طاقت پاکستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں فخر محسوس کر رہی ہے،چین جیسی سپر پاور پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہے۔
پاکستانی معیشت درست سمت آگےبڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں 1977 ءجیسا گیم کھیلا جا رہا ہے، اس وقت امریکا بہادر نے ملک کےپہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت کا نشان بنایا تھا، اب کس کو عبرت کا نشان بنایا جانا ہے اس کو سمجھنے کےلیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔
بھٹو پر تنقید کرنے والے یاد رکھیں کہ اسلامی دنیا کا پہلا ایٹم بم بھی انہی کا عطا کردہ ہے، اسی کا انہوں نے خمیازہ بھگتا۔
میں ذاتی طور پر اس طرز جمہوریت کو پسند نہیں کرتا جس میں ایک چپڑاسی یا چھابڑی فروش کی رائے کو ایک عالم اور صاحب فکر کی رائے کے برابر سمجھا جاتا ہے، جس میں بندوں کو گنا جاتا ہے، ان کی قابلیت کو نہیں دیکھا جاتا اور پھر یہی لوگ ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جنہوں نے ملک کو چلانا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہی جمہوریت، آمرانہ طرز حکومت سے ہزار درجے بہتر ہے۔
کم از کم کوئی بول تو سکتا ہے آمریت میں تو بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی،یہ بات شہید بی بی اور نواز شریف کو سمجھ آ گئی تھی، اسی لیے میثاق جمہوریت ہوا، بی بی صاحبہ کو تو منظر سے ہٹا دیا گیا اور ان کی پارٹی کا وہ حال کیا گیا ہے کہ مرحوم صدر جنرل محمد ضیاء الحق کی مضبوط ترین حکومت بھی 11سال میں نہ کر سکی۔
اب میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والے دوسرے بڑے سیاست دان میاں محمد نواز شریف کی سیاسی قربانی ہونے جا رہی ہے لیکن بونے سیاست دان جو اسکرپٹ پر چلتے ہیں انہیں میثاق جمہوریت کیسے گوارا ہو سکتا ہے، انہیں تو بس اقتدار چاہیے۔
لاہور میں بننے والی بھٹو کی پیپلز پارٹی تو 27 دسمبر 2007ء کو شہید بی بی کے ساتھ ہی قتل کر دی گئی، ہر سال محترمہ بے نظیر کے ساتھ اس عظیم پارٹی کی بھی برسی منانی چاہیے، موجودہ پارٹی تو زرداری پارٹی ہے، جس میں سے لوگ ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹنے والے ایک صاحب بھی اس پارٹی میں شامل رہے، آج کل ان کے پھر چرچے ہیں۔
جب میں سمجھدار اور پڑھے لکھے افراد کے منہ سے پروپیگنڈے پر مبنی باتوں کی گردان سنتا ہوں تو دل تھام لیتا ہوں کیونکہ مجھے تو اندازا ہے کہ اس رائے عامہ کو کس طرح ہموار کیا گیا اور ابلاغ عامہ کی مختلف حکمت عملیوں کا کس بے رحمی سے استعمال کیا جاتا رہا ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کی جذباتیت کو کس خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود میں پر امید ہی ہوں، نا امید نہیں ہوں، کیونکہ میرے رب نے نا امیدی کو کفر قرار دیا ہے۔
پروین شاکر کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ
رات ہرچند کہ سازش کی طرح ہے گہری
صبح ہونے کا مگر دل میں یقیں رکھنا ہے
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)