15 جولائی ، 2017
سپریم کورٹ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بظاہر اپنا کام مکمل کر لیا ہے لیکن شریف فیملی کے اثاثوں کے بارے میں تفتیش کاکام باہمی قانونی معاونت کے تحت اب بھی جاری ہے اور پاکستان کی جوڈیشل اتھارٹیز نے برطانیہ کے ہوم آفس سے 300 صفحات کی تصدیق کیلئے معاونت طلب کی ہے۔
دی نیوز کوبرطانوی ہوم آفس اور برطانوی وکلا کے ذریعے کی جانے والی جے آئی ٹی کی تفتیش سے واقفیت رکھنے باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ پاکستان نے برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی انٹرنیشنل کرمنلٹی یونٹ سےکم و بیش 300؍ صفحات کی تصدیق کی درخواست کی ہے۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ڈاکومنٹس میں ایسے کاغذات بھی شامل ہیں جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے متعلق ہیں جو برطانیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔
ہوم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو ابھی اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے لیکن ایم ایل اے کی درخواست کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
ہوم آفس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہوم آفس کی یہ دیرینہ پالیسی ہےکہ وہ اس طرح کی درخواستوں کی تصدیق یاتردید نہیں کرتی۔
مختلف ذرائع نے اس نمائندے کوبتایا کہ 3 سے زیادہ وکلا نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ایم ایل اے کے تحت جوڈیشل تعاون کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ تعاون کی درخواست کے تحت کئی مہینے لگ سکتے ہیں، ہمیں بتایاگیا ہے کہ اس کام میں میں کم از کم 4 ماہ سے ایک سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔
ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر بتایا کہ اس کیلئے بہت سخت محنت کرنا ہوگی، جے آئی ٹی کیلئے کام کرنے والے وکلا کاکہنا ہے کہ برطانیہ کے ہوم آفس کو تصدیق کیلئے جو دستاویزات دیئے گئے ان میں ایون فیلڈ پراپرٹیز، 1ہائیڈ پارک وے ، حسن نواز شریف کی کمپنیاں، ہل میٹلز سعودی عرب، عزیزیہ اسٹیل ملز، کیپٹل ایف زیڈ اے دبئی اور چند دیگر شامل ہیں۔
عام طور پراس طرح کی درخواست حکومتیں بھیجتی ہیں لیکن اس معاملے میں ایم ایل اے کو یہ درخواست پاکستان کے سپریم کورٹ کی جانب سے این اے او 1999 کی دفعہ 21 کے تحت کی گئی ہے اور اس حوالے سے حکومت پاکستان سے نہ تو مشاورت کی گئی اور نہ ہی حکومت کواس سے مطلع کیاگیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی 10ویں جلد میں ہی جسے عام نہیں کیا گیا ہے، باہمی قانونی معاونت کے راز موجود ہیں اور اس میں وہ تفصیلات موجود ہیں جن کے بارے میں غیر ملکی حکومتوں سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں وہ ڈاکومنٹس بھی ہیں جنہیں تصدیق یا تفتیش کیلئے دوسرے ملکوں کو بھیجا گیا ہے۔
10ویں جلد کے مندرجات سامنے آنے کے بعد ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا کیونکہ اس کی بنیاد پر حکومت یہ اعتراض کرے گی کہ مطلوبہ جواب حاصل کرنے کیلئے مخصوص سوالات ہی پوچھے گئے اس سے یہ بھی ظاہرہوجائے گا کہ ایم ایل اے سے درخواست کب کی گئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد یا پہلے۔
ہوم آفس کے سینٹرل اتھارٹی انٹرنیشنل کرمنلٹی یونٹ سے درخواست ٹوبی کیڈ مین کے ذریعے کی گئی ہے، جنہوں نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو 19جون کولکھے گئے ایک خط کے ذریعے مشورہ دیا ہے کہ اس فرم نے جے آئی ٹی کیلئے جتنے بھی ڈاکومنٹس کھلی اور خفیہ ذرائع سے حاصل کئے ہیں وہ اصل کی کاپیاں ہیں اور اس کے مندرجات کی تصدیق کرائی جاچکی ہے۔
انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ جے آئی ٹی کو اس حوالے سے حکومت برطانیہ سے باقاعدہ درخواست کرنی چاہیے اوراس درخواست میں حکومت پاکستان کے مجاذ ادارے کی جانب سے باہمی قانونی معاونت کی درخواست بھی شامل ہونی چاہیے اور ہماری فرم کو اس کام کیلئے مجاز بنانے کے ایک خط کی کاپی بھی ہونی چاہیے۔
جے آئی ٹی کے ساتھ ٹوبی کیڈمین کی یہ خط وکتابت 19جولائی کی ہے لیکن انہوں نے اس سے قبل بھی اس معاملے پر تبادلہ خیال اورگزشتہ چند ہفتوں کی مسلسل کوششوں کاحوالہ بھی دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو برطانیہ کی قانونی فرم کی خدمات جے آئی ٹی کی تشکیل کے ساتھ ہی یا اس سے قبل ہی حاصل کرلی گئی تھیں۔
ٹوبی کیڈمین کی خدمات نواز شریف کے بیٹوں حسن اور حسین نواز شریف کےجو گزشتہ 2 عشروں سے زیادہ عرصے سے برطانیہ میں کاروبار کررہے ہیں اور برطانوی شہری ہیں کاروبار کی تفتیش اور اس کی تصدیق کرنے کیلئے حاصل کی گئی تھیں، ٹوبی کیڈ مین کا شمار معروف بین الاقوامی ماہرین قانون خاص طورپر باہمی قانونی معاونت کے معاملات کے ماہرین میں ہوتاہے اور مختلف حکومتیں، ادارے اور افراد جنگی جرائم ،حقوق انسانی ،دہشت گردی اور ملک بدری کے معاملات میں اس ادارے کی خدمات حاصل کرتے رہتے ہیں، ٹوبی کیڈمین کی خدمات حاصل کی گئیں جس سے غداری کیس میں پرویز مشرف سے معاونت لی۔
دی نیوز کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ جے آئی ٹی نے ٹوبی کیڈ مین کی خدمات حاصل کرنے کیلئے براہ راست اس سے رابطہ کیا تھا، دی نیوز کے رابطہ کرنے پر ٹوبی کیڈمین نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے جاری تفتیش کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی تھی جو کہ پیش کی جاچکی ہے چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے اس پر مزید تبصرہ کرنامناسب نہیں ہوگا۔
جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے بی وی آئی، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، لکژمبرگ اورسوئزرلینڈ کی حکومتوں کو ایم ایل اے کی درخواستیں بھیجی تھیں اور سب سے زیادہ تعداد میں درخواستیں برطانیہ کے ہوم آفس سے کی گئی ہیں۔
معلوم ہواہے کہ کہ ٹوبی کیڈمین نے ایم ایل اے کی 7 درخواستیں ایک رسمی درخواست کے ساتھ بھیجی ہیں جن میں جوڈیشل تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ اختر راجہ نے اپناکام ختم نہیں کیاہے اور مختلف سرکاری محکموں کو یادداشت کے خطوط لکھے جارہے ہیں۔