20 جولائی ، 2017
ایسے میں جب کہ حسین نواز نے یہ ثابت کرنے کے لیے آخری کوشش کے طور پر ایک نجی فرم کی دستاویزات پیش کیں کہ مریم نواز نہیں بلکہ وہ نیلسن اور نیسکول کے بینی فشل مالک ہیں، تو اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا سپریم کورٹ نجی فرم کے ریکارڈ کو مستند تسلیم کرتی ہے یا برٹش ورجن آئی لینڈ کے ریکارڈ کو۔ایک جانب برٹش ورجن آئی لینڈ کی دستاویزات ہیں جو پاناما پیپرز کے سرخیوں میں آنے بھی بہت پہلے وجود رکھتی تھیں۔
عدالتی جنگ کے دوران نجی فرم کے خطوط کے ذریعے ان کی نفی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آیا معلومات جو فرم نے بی وی آئی کو دیں وہ درست تھیں یا وہ جو سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے خط میں جھلکتی ہیں۔ اگرچہ بی وی آئی پہلے ہی 2012 میں اس کے فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کو جمع کرائی گئی معلومات کہ مریم آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول کی بینی فشل مالک ہیںکی تصدیق کرچکی ہے ۔
شریف خاندان اب اپنے خدمات فراہم کرنے والے ادارے کے خطوط کے ذریعے اسے متنازع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ زیر بحث کمپنیوں سے متعلق برٹش ورجن آئی لینڈ کے ریکارڈ کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو موساک فونسیکا کے ذریعے حاصل کی گئیں یہ پاناما کی وہ قانونی فرم ہے جو برٹش ورجن آئی لینڈ میں خاندان کی نمائندگی کررہی تھی۔
کمپنیوں سے متعلق برٹش ورجن آئی لینڈ کی جانب سے کسی بھی سوال سے یہ فرم ڈیل کرتی ہے۔ منروا سروسز خدمات فراہم کرنے والی وہ کمپنی ہے جو خاندان اور قانونی فرم کے درمیان رابطہ تھی۔ بدھ کی رات میڈیا کو جاری کیے جانے والی تین ’’نئی‘‘ دستاویزات میں سے ایک پہلے ہی سپریم کورٹ میں جمع کرائی جاچکی ہے جب کہ اس وقت تک جے آئی ٹی بھی تحقیقات کے لیے تشکیل نہیں دی گئی تھی۔
یہ شریف خاندان کی درخواست پر منروا سروسز نے تحریر کی تھی جس میں سروس پروائڈر امیش سہال نے حسین سے تصدیق کی کہ ’’جہاں تک مجھے یاد ہے‘‘ حسین کی رہائش گاہ پر ایک ملاقات ہوئی جس میں منروا نے نیلسن اور نیسکول کی انتظامیہ سنبھالی تھی۔
یہ خط گزشتہ سال دسمبر میں عدالت میں جمع کرایا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ نشاندہی کرنا تھا کہ حسین کمپنیوں سے ڈیل کرنے میں شامل تھے نہ کہ مریم، یہ اپنے آپ میں خود کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ (مریم) بینی فشل اونر نہیں ہیں۔ تاہم امیش سہال نے کہیں بھی خط میں یہ بات نہیں کہی کہ ان کی کمپنی نے موساک فونسیکا کو مریم کے بینی فشل اونر ہونے سے متعلق جو معلومات فراہم کیں وہ غلط تھیں۔
12 جون سے 22 جون 2012 کے دوران موساک فونسیکا اور منروا کے مابین ایک درجن سے زائد ای میلز کا تبادلہ ہوا تھا جو برٹش ورجن آئی لینڈ کی فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے طلب کردہ معلومات کی تصدیق کے لیے تھی اور جس میں نیلسن اور نیسکول کی بینی فشل اونر کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا اور یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ آیا ان کمپنیوں کے ساتھ کوئی ٹرسٹ بھی منسلک ہے یا نہیں۔
باضابطہ تصدیق کے بعد جو جواب جمع کرایا گیا وہ یہ تھا کہ مریم بینی فشل اونر تھیں اور ان کی اپنے صارف کو جانیے کی تفصیلات بھی منسلک تھیں۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ خاندان کی جانب سے ان دعوؤں کے برعکس کہ جن میں خفیہ ٹرسٹ ڈیڈ میں دکھایا گیا تھا کہ مریم ٹرسٹی اور حسین نواز بینی فشل اونر ہیں، ان کمپنیوں سے کوئی ٹرسٹ منسلک نہیں ہے۔
متعدد دیگر خطوط جو حسین کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے جائیں گے وہ جے پی سی اے لمیٹیڈ سے حاصل کیے گئے ہیں۔ یہ نیلسن اور نیسکول کی نمائندگی کرنے والی کمپنی منروا کی جگہ خدمات فراہم کرنے والا نیا ادارہ ہے۔
ان خطوط میں ایک ہی نکتے پر روز دیا گیا ہے کہ جے پی سی اے کے کسی نمائندے نے کبھی مریم سے ملاقات نہیں کی کیونکہ وہ صرف ٹرسٹی ہیں جب کہ حسین نواز بینی فشل اونر ہیں۔ یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ جے پی سی اے نہیں بلکہ منروا تھی جس نے موساک فونسیکا کو برٹش ورجن آئی لینڈ سے مزید کمیونیکیشن کے لیئے معلومات فراہم کی تھیں۔
لہٰذا یہ ایسے دعوے کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے مریم سے ملاقت نہ کرنے سے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ بینی فشل اونر ہیں۔ ہماری جیسی ثقافت میں بینک اکاؤنٹس خواتین کے نام پر کھولے جاتے ہیں اور مرد ان کی ہر جگہ نمائندگی کرتے ہیں سوائے اس جگہ جہاں کھاتے دار کے دستخط درکار ہوتے ہیں۔ کئی امیروں نے اپنی خواتین کے نام پر قرضے لیے ہیں اور کمپنیاں کھولی ہیں۔ اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ سے توقع ہے کہ سپریم کورٹ میں دلچسپ بحث ہوگی، یہ فیصلہ اس پر چھوڑتے ہیں کہ کس کو زیادہ اعتبار حاصل ہوتا ہے، بی وی آئی کی سرکاری دستاویز کو یا ایک نجی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی سے حاصل کردہ خطوط کو۔ ؟
یہ رپورٹ 20 جولائی کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی