03 اگست ، 2017
نواز شریف کی نااہلی سے کافی دن پہلے اسلام آباد میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو چکی تھیں کہ اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔ بہت سے نام زیر بحث تھے۔ جب چوہدری نثار علی خان کی کمر میں درد شروع ہوا تو مسلم لیگیوں کو سمجھ آ گئی کہ خواجہ محمد آصف اور احسن اقبال کا کام تمام ہو چکا۔ نااہلی کے فیصلے سے ایک دن پہلے میں نے شاہد خاقان عباسی سے پوچھا کہ اگر آپ کو وزیراعظم بننے کے لئے کہا گیا تو پھر کیا کریں گے؟ عباسی صاحب نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگایا۔
اصرار کے ساتھ سوال دہرایا تو شاہد خاقان عباسی نے بڑی عاجزی سے کہا کہ میں اس عہدے کے لئے موزوں نہیں ہوں اور ویسے بھی ہم نے اس بارے میں ابھی تک کچھ سوچا ہی نہیں۔ اُن کی بات سُن کر میں مسکرا دیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ کب، کہاں اور کس کس نے شاہد خاقان عباسی کے نام پر غور و فکر کیا۔
وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدواروں نے براہِ راست کوئی لابنگ نہیں کی تھی البتہ شریف خاندان کے مرد و خواتین طریقے سلیقے سے اپنے اپنے پسندیدہ اُمیدواروں کا ذکر نواز شریف صاحب کے سامنے کرتے رہتے تھے۔ اس غیررسمی اور غیر محسوس لابنگ میں شہباز شریف کا ذکر تو آتا رہا لیکن شاہد خاقان عباسی کا ذکر نہیں آیا۔
اُن کا نام سب سے پہلے نواز شریف صاحب نے خود لیا۔ بہت سے مسلم لیگیوں کے لئے شاہد خاقان عباسی کا نام غیرمتوقع تھا۔ وہ کئی سال سے نواز شریف صاحب کے وفادار ساتھیوں میں شمار ضرور ہوتے ہیں لیکن اکثر اوقات اپنی قیادت کے سامنے سیدھی اور سچی بات کر دیتے ہیں اس لئے خود اُنہیں بھی یقین نہیں تھا کہ نواز شریف اپنی جگہ اُنہیں وزیراعظم بنا دیں گے۔
شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنانے کی کئی وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ پاناما کیس کے شور شرابے میں اُنہوں نے ہمیشہ نواز شریف کا بڑے جارحانہ انداز میں دفاع کیا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک غیر متنازع شخص ہیں۔ اُن کی خواجہ محمد آصف کے ساتھ بھی دوستی ہے اور چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بھی احترام کا رشتہ ہے۔ تیسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف کے ہمراہ جن افراد پر جنرل پرویز مشرف نے طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا تھا ان میں شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے۔
عباسی صاحب پی آئی اے کے چیئرمین تھے۔ اُن پر الزام تھا کہ اُنہوں نے وزیراعظم کے ساتھ مل کر پی آئی اے کے طیارے کو کراچی میں لینڈ نہیں کرنے دیا اور پونے دو سو مسافروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں۔ شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کر کے لانڈھی جیل بھجوا دیا گیا جہاں آصف علی زرداری پہلے سے موجود تھے۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف کو بھی اسی جیل میں لایا گیا۔
شاہد خاقان عباسی کو 12 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا لیکن ان پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ 10نومبر 1999ء کو درج کیا گیا۔ اس دوران شاہد خاقان عباسی کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اُنہوں نے انکار کر دیا۔ آخرکار مشرف حکومت سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈی جی امین اللہ چوہدری کو وعدہ معاف گواہ بنانے میں کامیاب ہوگئی جنہوں نے بیان دیدیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اُنہیں خود فون کر کے حکم دیا کہ مشرف کے طیارے کو کراچی میں نہ اُترنے دیا جائے۔
امین اللہ چوہدری کے بیان پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نواز شریف کو عمرقید کی سزا دی۔ شہباز شریف، غوث علی شاہ اور رانا مقبول کو رہا کر دیا گیا لیکن شاہد خاقان عباسی کو پی آئی اے کے لئے 200کمپیوٹروں کی خریداری میں گھپلا کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ نواز شریف کو لانڈھی جیل سے اٹک قلعہ بھجوا دیا گیا اور ایک احتساب عدالت میں اُن پر ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال کا ریفرنس دائر کیا گیا۔
جولائی 2000ء میں اٹک میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو چودہ سال قید اور 21سال تک نااہلی کی سزا سنائی۔ کچھ عرصے کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف اہل خانہ کے ہمراہ سعودی عرب چلے گئے۔ شاہد خاقان عباسی کو دو سال کے بعد رہا کر دیا گیا لیکن وہ کراچی کی اینٹی کرپشن اینڈ امیگریشن عدالت میں کرپشن کا مقدمہ کئی سال تک بھگتتے رہے۔ اس مقدمے سے نجات اُنہیں 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملی۔
شاہد خاقان عباسی کے والد ایئر فورس میں ایئرکموڈور تھے۔ اُن کے بہت سے رشتہ دار فوج میں رہے لیکن اکتوبر 1999ء میں شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مشرف حکومت نے جو کیا اُس کے باعث وہ سیاست میں فوج کی مداخلت کے بہت بڑے ناقد بن گئے۔ انہوں نے لانڈھی جیل کراچی میں جس بہادری اور ثابت قدمی سے وقت گزارا اُس نے آصف علی زرداری کو بھی اُن کی تعریف پر مجبور کر دیا۔
کچھ سال پہلے آصف علی زرداری ہمیں اپنے جیل کے قصے سنا رہے تھے تو انہوں نے بتایا کہ شاہد خاقان عباسی نے اس طرح جیل کاٹی کہ پوری لانڈھی جیل کو پتا تھا کہ ایک مرد کا بچہ جیل میں آیا ہے۔ دو سال کی جیل کاٹنے اور ڈیڑھ ماہ کے لئے حکومت چلانے میں بہت فرق ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد قومی اسمبلی سے جو خطاب کیا، اُس پر مسلم لیگ (ن) والے تو بہت خوش ہیں لیکن اس خطاب میں عدلیہ کے متعلق اُن کا لہجہ کافی تلخ تھا۔ سیاسی مخالفین کو اُنہوں نے جس انداز میں جواب دیا وہ وزیراعظم کے عہدے کے شایان شان نہ تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ 2017ء کی اپوزیشن سے نہیں بلکہ 1999ء کی فوجی حکومت سے مخاطب ہیں۔ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کے قائد نواز شریف نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے احتساب کا سنہری موقع خود ضائع کر دیا۔ اگر نواز شریف 2016ء میں پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دیتے اور اس معاملے پر جنرل راحیل شریف اُنہیں زبردستی حکومت سے نکال دیتے تو واقعی نواز شریف تمام جمہوریت پسندوں کے ہیرو بن جاتے اور آج عمران خان کو اُن کی شان میں چھوٹی سی گستاخی کی بھی جرأت نہ ہوتی۔
نواز شریف نے اصولوں کا سودا کیا اور اس سودے میں نقصان اٹھایا۔ اب ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کا فائدہ نہیں بلکہ مزید نقصان ہو گا۔ شاہد خاقان عباسی کو ریاستی اداروں سے محاذ آرائی کئے بغیر 2018ء کے انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے۔
انتخابات تک شریف خاندان نیب کے ریفرنسوں سے بچ گیا تو مسلم لیگ (ن) پہلے سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرے گی۔ شریف خاندان ریفرنسوں سے نہ بچا تو پھر بھی زیادہ سیاسی نقصان کا احتمال نہیں کیونکہ تحریک انصاف کو بھی دھچکے لگیں گے۔ عائشہ گلالئی کے الزامات بھی عمران خان کے لئے ایک بڑا دھچکا ہیں۔ ان الزامات کی صداقت پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لہٰذا ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے انکوائری ضروری ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں گرد و غبار بڑھنے والا ہے۔ جو الزام ایک خاتون ایم این اے نے عمران خان پر لگایا ہے ایسے ہی الزامات مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں پر بھی لگ سکتے ہیں۔ نواز شریف جانتے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی پر اس قسم کا الزام لگنے کا کوئی خطرہ نہیں لہٰذا انہوں نے ایک شریف آدمی کو وزیر اعظم بنا کر مسلم لیگ (ن) کی شرافت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے۔
سینئر صحافی اور جیو نیوز پر پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کے میزبان حامد میر کا یہ کالم 3 اگست 2017 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔