ذرا خیال رہے جناب یہ 1977 نہیں ہے

پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ جناب نواز شریف نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کر کے ایک طرف ان تمام لوگوں پر سکتہ طاری کر دیا ہے جن کے خیال میں اب شریف فیملی کبھی واپس نہیں آنے والی تھی دوسری طرف اسٹبلشمنٹ کی طاقت کو بھی للکارا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت سے دانشور خوتین و حضرات نواز شریف کو ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہے بیٹھے تھے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بہت سے اینکرز نما مداریوں کو بھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ نواز شریف نے پاکستان آنے کا فیصلہ کس طرح کرلیا۔ کچھ اور کہنے کو نہیں ملا تو کہا جا رہا ہے کہ ایک نئے این آر او کے تحت نواز شریف واپس آ رہے ہیں۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ انہوں نے اسی راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس پر جناب بھٹو چالیس برس پہلے چلے تھے اور نتیجہ کے طور پر پھانسی پر جھول گیے تھے۔ راہ تو وہی ہے لیکن ایک بات مقتدر حلقے بھی جانتے ہیں کہ یہ 1977 نہیں ہے۔ گو کہ ابلاغ عامہ کے وہ سارے حربے جن کا تعلق رائے عامہ کو تبدیل کرنا ہے دو تین برس سے استعمال میں لائے جا رہے ہیں.  اور ان لوگوں کی اکثریت جو رائے عامہ کو بدلنے پر قادر ہے مقتدر لوگوں کی مٹھی میں ہے پھر بھی 1979 والی تاریخ دہرانی بہت مشکل ہے۔

آج صبح بیڈ ٹی لیتے ہوئے روزنامہ جنگ کی سپر لیڈ پر نظر پڑی تو سارا منظر نامہ واضح ہوتا چلا گیا۔ ادھر بھارت اور ادھر افغانستان دونوں محاذوں پر معاملات گرم ہیں۔ ٹرمپ نے امریکی جہازوں کو آج شمالی کوریا کی سرحدوں کے چکر لگوا دیے ہیں۔ ہمیں تو وہ دھمکی دے ہی چکا ہے۔

دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت یہود و نصاری کے ساتھ ساتھ ہنود کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹک رہی ہے گریٹ گیم مرحلہ وار آگے بڑھ رہی ہے اور ہم الیکشن کی باتیں کر رہے ہیں۔ آخر ان سیاست دانوں کو کس بات کی جلدی ہے۔ ابھی میں جناب عمران خان کی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ جس وقت افغان پالیسی بن رہی تھی تو نواز شریف حکومت پاناما میں الجھی ہوئی تھی۔

مجھے اکثر جناب عمران کے بیانات پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس تناظر میں کیا فرما رہے ہوتے ہیں. جناب کیا نواز شریف حکومت کو چار سالوں میں آپ نے ایک پل بھی چین کرنے دیا۔ آپ نے حکومت کو دھرنوں، پارلیمنٹ پر حملوں، عدالتوں اور دھمکیوں میں الجھائے رکھا۔

جس وقت چین کے صدر نے 45 بلین ڈالرز کے معاہدوں کے لیے پاکستان آنا تھا آپ نے سارے ملک کا دنیا میں تماشا بنایاہوا تھا۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، سرکاری ٹی وی اور دیگر عمارات پر ڈنڈے برسائے گئے، آپ نے اس ملک میں اوئے کلچر متعارف کروایا، نوجوانوں کو تہذیب و تمیز سکھانا بزرگوں کا کام ہے اگر لیڈرز ہی لوگوں کے گریبانوں کو چاک کرنے کا ہنر سکھائیں گے تو اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔

دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک نیا بیانیہ اس قوم کے شاہینوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جس کے مطابق مالی کرپشن تو جرم ہے لیکن کردار کوئی معنی نہیں رکھتا یہ لیڈر کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ ہم تو بڑے عرصے سے ان عاقبت نا اندیش سیاست دانوں میڈیا کے مداریوں اور تاریخ اور حقائق سے بے بہرہ جذباتیت زدہ لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر جس کو میں نے ٹرمپی ورلڈ آرڈر کا نام دیا ہے کے تانے بانے بنے جا چکے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کی ایک محدود پیمانے پر جنگ کروا کر سی پیک کو مفلوج کرنا مقصود ہے۔ ہمیں دو محاذوں پر لڑنا ہو گا۔ قوم کو مکے دکھانے والے پرویز مشرف کی مہربانیوں سے ہماری افغان سرحد بھی محفوظ نہیں رہی۔ نواز شریف کو بے وقوف سمجھنے والے خود ناسمجھ ہیں۔ وہ اس وقت بین الاقومی صورتحال کو ہم سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔

جناب عمران خان تو بی بی سی کو ایک انٹرویو میں اپنی ناتجربہ کاری کا اعتراف کر چکے ہیں۔ حسین نواز کے مطابق نواز شریف عدالتوں کا سامنا کریں گے۔ جو لوگ نواز شریف کو انڈر ایسٹیمیٹ کر رہے تھے ان کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی سب سے مضبوط پارٹی کے سربراہ نے واپسی کا فیصلہ کر کے در حقیقت پاکستان کا ساتھ دینے فیصلہ کیا ہے اور عاقبت نا اندیش سیاست دان مداری اینکران نہیں بلکہ تاریخ فیصلہ کرے گی کہ ان کا فیصلہ کتنا بروقت اور جرات مندانہ تھا۔

ہم سب کو اب اس طوفان کا سامنا کرنا ہے جو تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہا ہے اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اس وقت ہر سطح پر ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ ایک سیسہ پلائی دیوار بننے کی ضرورت جتنی آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر  پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں, حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔