Time 25 اکتوبر ، 2017
پاکستان

پہلے گرفتاری پھر تردید، ریٹنگ کا چکر صرف میڈیا نہیں بلکہ پولیس میں بھی ہے !

شہید آئی جی ایف سی خیبرپختوانخواہ صفوت غیور کے یوم شہادت کی مناسبت سے یوم شہدائے پولیس گزشتہ تین سالوں سے منایا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں ملک بھر سمیت کراچی میں بھی مختلف تقاریب ہوئیں تاہم مرکزی تقریب پولیس ہیڈکوارٹرز گارڈن میں ہوئی جس میں کراچی پولیس چیف اور رینجرز کے اعلیٰ حکام سمیت پولیس اہلکاروں اور شہدا کے لواحقین نے شرکت کی۔ 

پولیس شہدا کی یادگار پر شمعیں روشن کی گئیں جبکہ یہی شمعیں تقریب کے لیے سجائے گئے پنڈال میں بھی حاضرین نے روشن کیں۔ 

مختلف افسران نے اپنے اپنے انداز میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا تاہم جب باری آئی کراچی پولیس چیف کی تو وہ اپنی تقریر میں ماحول کی مناسبت سے جذباتی دکھائی دیئے۔

ایک موقع پر انھوں نے حال ہی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر شہید کیے گئے ٹریفک پولیس کے ہر دلعزیز ہیڈ کانسٹیبل خان محمد کے قاتلوں کی نہ صرف گرفتاری کا دعوی کردیا بلکہ شہید اہلکار کی چھینی گئی ایم پی 5 گن بھی برآمد کرنے کا بتایا اور یہ بھی بتایا کہ یہ کام کراچی پولیس نے نہیں بلکہ سی ٹی ڈی نے کیا۔ 

پولیس کی کارکردگی کا سن کر حاضرین نے خوب تالیاں بجائیں اور میڈیا کو بھی ایک بڑی خبر مل گئی تاہم ٹی وی چینلز پر ابھی کراچی پولیس چیف کا بیان پوری طرح جگہ ہی نہ بناسکا تھا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی تردید سامنے آگئی۔ 

یہ تردید بھی کراچی پولیس چیف کے خطاب کے آدھے گھنٹے کے اندر ہی کر دی گئی، اور حیرت انگیز طور پر چند لمحات بعد ہی کراچی پولیس چیف کے ترجمان نے اپنے ہی باس کے بیان کی خود بھی تردید کردی۔ 

یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب پولیس نے اپنے ہی کام کی تردید کی ہو، ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

چاہے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر شکیل اوج کے قتل کے ملزمان ہوں یا شہید ولی خان بابر کے قتل کیس کی پیروی کی تیاری کرنے والے افتخار رندھاوا ایڈووکیٹ کے قتل کے۔

پہلے کوئی ملزم پکڑا گیا اور بعد میں کوئی لیکن جس نے جس کو پکڑا اس کے مطابق وہ ٹھیک تھا تاہم اس طرز عمل سے نہ صرف تحقیقات متاثر ہوئیں بلکہ اصل قاتل کے حوالے سے عام آدمی کے ذہن میں کئی سوالات بھی پیدا ہوئے۔

ایڈیشنل آئی جی کی سطح کا سینئر افسر ہی اگر کارکردگی کے چکر میں تصدیق کے بغیر ہی اتنی بڑی خبر دے کر بعد میں مکر جائیں تو ہم جیسے صحافی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا کارکردگی کی دوڑ اتنی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ صحیح یا غلط کا معیار بھلادیا جائے۔

 تو پھر ان جیسے صحافیوں کا کوئی قصور نہیں جو ریٹنگ کے چکر میں کچھ بھی اور کہیں بھی کچھ بھی کہ یا کردیتے ہیں، کسی کو ان پر بھی انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔

مزید خبریں :