Time 30 اکتوبر ، 2017
پاکستان

کافریا مرتد قراردینا صرف اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، امام کعبہ

امام کعبہ شیخ صالح بن عبداللہ بن محمد بن حمید نے کہا ہے کہ چاہے کفر کا معاملہ ہو یا چاہے کسی کو مرتد قرار دینے کا اور قتل کرنے کا معاملہ ہو یہ صرف اور صرف اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

جیونیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امام کعبہ نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا کے اندرجہاد اور قتال منظم اسلامی امام اور حاکم کے تابع ہو کر ہی کیا جاسکتا ہے، اس سے ہٹ کر اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور آپ اس بات کی گواہی حالیہ تاریخ سے لے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں انفرادی اور تنظیمی جہاد کی کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے،چاہے اسلامی حکومتیں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوجا ئیں ،یہ ان حکومتوں کی ہی ذمہ داری ہے۔اگر مسلمان حکومت کمزور ہے اور وہ قتال یا جہاد نہیں کرسکتی تو جس طرح ایک مسلمان کمزور ہے اور وہ بہت سارے احکامات سے معذور ہوتا ہے تو اس طرح حکومت بھی بسااوقات کچھ چیزوں سے معذور ہوتی ہے،اگر وہ اتنی کمزور ہے کہ وہ جہاد اور قتال نہیں کرسکتی تو وہ اللہ کے ہاں معذورہے،ہاں یہ ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے وہ مضبوط ہوجائے، لوگ اس کے ساتھ ملیں اور اپنی حکومت کا ساتھ دے کر مسلمان امت کی حفاظت کا کام دیں۔

پروگرام میں ایک اورسوال کے جواب میں امام کعبہ شیخ صالح بن عبداللہ کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک امت کے تمام مسائل کا اگر کوئی خلاصہ ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم مشکلات کے اندر اس لئے ہیں کہ ہم بٹے ہوئے ہیں،اختلافات کا شکار ہیں اور آپس میں ایک دوسر ے کو برداشت نہیں کرتے ہیں، اسی لئے صلف صالحین میں سے سب یہ کہا کرتے تھے کہ بٹ جانا اور تفرقہ میں جانا ہی اصل شر ہے، اس لئے اہم ترین بات ہے کہ اس بیماری کی تشخیص کے بعد اس کے علاج میں سب سے اہم بات کو سمجھ لیا جائے کہ جس حد تک ممکن ہو اختلافات اور آپس کی دوریوں کو کم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لئے ضروری ہے کہ امت اسلامیہ کی مصلحتوں کو ذاتی یا ملکی یا مسلکی اور دیگر قسم کی جو ہماری مصلحتیں اور آپس کے مفادات ہیں ان پر مقدم کیا جائے،اس کا حل ایک ہی ہے اور وہ حل یہ ہے کہ انسان کو کلمہ حق کا ساتھ دینا چاہئے، حق کا غلبہ ہونا چاہئے، تعصب اور خواہش پرستی کو چھوڑ کر ہم امت کی مصلحتوں کواپنی ذاتی مصلحتوں کے اوپر فوقیت دیں۔

امام کعبہ شیخ صالح بن عبداللہ کا کہنا تھا کہ اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں ہیں ان کا اسلام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک ایسا تاثر پیدا کیا گیا کہ دین اسلام کی اس انداز میں خدمت کی جاسکتی ہے، اس سلسلے میں کوئی بھی ایسی تنظیمیں خواہ وہ داعش ہو، القاعدہ ہویا اس کے ملتے جلتے ناموں کے ساتھ کہیں پر بھی اس قسم کی انتہاپسند تنظیمیں ہوں جو دہشتگردانہ کارروائیوں کے اندر ملوث ہیں، ہمیں افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم نے اس بات کو سمجھنے میں اور منکشف کرنے میں بڑا وقت لگادیا۔

سلیم صافی: شیخ میں پہلا سوال یہ کرنا چاہوں گا کہ آپ کے دورہ پاکستان کا اصل مدعا اور مقصد کیا تھا؟

امام کعبہ: سب سے پہلے تو یہ کہ یہ میرا پاکستان کا پہلا دورہ نہیں ہے، میں چھٹی یا ساتویں مرتبہ پاکستان آرہا ہوں، یقینی طور پر جب انسان اتنی دفعہ کسی جگہ آئے تو اپنے مسلمان بھائیوں سے ایک انسیت محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے، سب سے پہلی بات کہ اس انسیت کے تحت میں یہاں پر آیا ہوں، جو ہدف ہے اس میں سب سے اساسی جو بات تھی وہ بین الاقوامی یونیورسٹی کے اندر منعقدہ بین الاقوامی حلال غذا سے متعلق جو کانفرنس ہورہی ہے اس میں شرکت تھی، یہ کانفرنس انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی سعودی عرب اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اشتراک سے یہاں پر ہورہی ہے، اسلامک فقہ اکیڈمی سعودیہ کا میں چیئرپرسن ہوں، اس کا رئیس ہوں، اس کانفرنس میں شرکت کے لئے اور حلال غذا کے حوالے سے جو اہم ترین موضوع ہے اس پر اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے میں یہاں پر آیا ہوں۔

سلیم صافی: شیخ اس وقت آپ سے بڑھ کر کوئی امت مسلمہ کی رہنمائی بھی نہیں کرسکتا، جس منصب پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز کیا ہے امام کعبہ تو آپ سے بڑھ کر کوئی مسلمان امت کے وجود میں اگر کوئی نقص ہے تو آپ سے بہتر اس کی کوئی تشخیص بھی نہیں کرسکتا، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ باوجود محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کے اس وقت پوری دنیا میں مسلمان آزمائشوں اور زوال کے شکار کیوں ہیں، آپ کے نزدیک اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

امام کعبہ: سب سے پہلے تو میں آپ کا اس بات پر مشکور ہوں کہ آپ نے ایک نہایت اہم سوال پوچھا ہے جس کے متعلق تفصیل کے ساتھ بہت ساری جگہوں پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس میں سیاسی انداز میں بات ہونی چاہئے،میڈیا پر بھی بات ہونی چاہئے، علمی تفاصیل کے تحت بھی بات ہونی چاہئے، ہر کسی کو اس میں اپنا اپنا کردار ادا کرناچاہئے۔

’اس وقت امت اس بات کی شدید محتاج ہے کہ اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو کی جائے، میں آپ کے حسن نظر کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ کا حسن ظن ہے کہ میں اس حوالے سے کوئی بات چیت کرسکتا ہوں، جو اللہ نے مجھے توفیق دی ہے وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں، میرے نزدیک امت کے تمام مسائل کا اگر کوئی خلاصہ ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم مشکلات کے اندر اس لئے ہیں کہ ہم بٹے ہوئے ہیں،اختلافات کا شکار ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے ہیں‘۔ 

’اسی لئے صلف صالحین میں سے سب یہ کہا کرتے تھے کہ بٹ جانا اور تفرقہ میں جانا ہی اصل شر ہے، اس لئے اہم ترین بات ہے کہ اس بیماری کی تشخیص کے بعد اس کے علاج میں سب سے اہم بات کو سمجھ لیا جائے کہ جس حد تک ممکن ہو اختلافات اور آپس کی دوریوں کو کم کیا جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ امت اسلامیہ کی مصلحتوں کو ذاتی یا ملکی یا مسلکی اور دیگر قسم کی جو ہماری مصلحتیں اور آپس کے مفادات ہیں ان پر مقدم کیا جائے‘۔

’میں آپ سے یہ نہیں کہہ رہا کہ تمام مسالک یا اختلاف رائے یا آپس کے جو ہماری تقسیمات ہیں یہ سوفیصد ختم ہوسکتی ہیں، یہ تقسیمات صرف ایسا نہیں ہے کہ صرف امت اسلامیہ میں ہی موجود ہوں، دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اور دیگر مذاہب میں بھی یہ تقسیمات موجود ہیں لیکن ہمیں مشکلات اس وقت دیکھنی پڑتی ہے جب کسی ایک مسلک کا یا ایک فرقہ کا قائد یا لیڈر یا کسی ایک ملک کا قائد یا لیڈر اپنی ذاتی مصلحتوں اور مفادات کو امت کی مصلحتوں اور مفادات پر غالب کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئے‘۔

سلیم صافی: شیخ اس میں عام طور پر یہ دیکھاگیا ہے کہ اس اختلاف کو زیادہ تر اہل مذہب ہی بڑھارہے ہیں، وہ کسی بھی مسلک کے ہوں لیکن جو ان کے سرکردہ علماء ہوتے ہیں وہ اس کو بڑھاوا دیتے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں علماء کو کیا رویہ اپنانا چاہئے کہ یہ اتحاد اور اتفاق حقیقی معنوں میں پیدا ہوسکے؟

امام کعبہ: میرا جواب کسی بھی صورت میں مختلف نہیں ہوگا، نہ زمان کے اعتبار سے نہ مکان کے اعتبار سے، میرے خیال میں یہ معاملہ پوری امت کو پوری دنیا کے اندر کسی بھی وقت میں کسی بھی جگہ لاحق ہو تو اس کا حل ایک ہی ہے اور وہ حل یہ ہے کہ انسان کو کلمہ حق کا ساتھ دینا چاہئے، حق کا غلبہ ہونا چاہئے، تعصب اور خواہش پرستی کو چھوڑ کر خواہ وہ عالم ہو، کوئی سیاسی لیڈر ہو، کوئی فوجی لیڈر ہو، کوئی بھی ہو وہ سب اخلاص برتیں اور ملک و امت کی مصلحتوں کو مقدم کر کے ذاتی ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیں گے تو بغیر کسی اس قسم کی تقسیم کہ کون سا ملک کیا کررہا ہے، ہر قسم کے دور میں ہر قسم کی جگہ پر اس مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے،جواب ایک ہی ہے کہ ہم امت کی مصلحتوں کواپنی ذاتی مصلحتوں کے اوپر فوقیت دیں۔

سلیم صافی: شیخ اس وقت خود مسلمانوں کے اندر جو انتہاپسندانہ سوچ فروغ پارہی ہے اور جو ایسی تنظیمیں سامنے آگئی ہیں جو اسلام اور شریعت کے نام پر جسموں سے بم باندھتے ہیں اور اپنے جیسے مسلمانوں کوبھی اڑاتے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس کا محرک اور وجہ وہ غیرمسلم ممالک کا ظالمانہ اور ناجائز رویہ ہے یا خود مسلمانوں کی دین سے عدم واقفیت ہے یا مسلمانوں کے اندر کوئی غلطی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت جو ہے وہ تشدد اور فساد کے راستے پر جارہی ہے؟

امام کعبہ: میں نہایت افسوس کے ساتھ اس بات کو سمجھتا ہوں کہ جس معاملہ کی طرف آپ نے اشارہ کیا امت کو اس کو تلاش کرنے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے میں کئی سال لگ گئے اور ہم بہت دیر سے یہ بات سمجھ سکے کہ یہ جو اسلام کے نام پر بننے والی تنظیمیں ہیں ان کا اسلام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک کھیتی بیجی گئی اور اس کے اندر مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی اساس کوا ستعمال کرلیا گیا اس لئے کہ نوجوانوں کے اندر دینی جذبہ ، غیرت و حمیت زیادہ ہوتی ہے اور کچھ کرنے کاجذبہ زیادہ ہوتا ہے، ایک ایسا تاثر پیدا کیا گیا کہ دین اسلام کی اس انداز میں خدمت کی جاسکتی ہے، اس سلسلے میں کوئی بھی ایسی تنظیمیں خواہ وہ داعش ہو، القاعدہ ہویا اس کے ملتے جلتے ناموں کے ساتھ کہیں پر بھی اس قسم کی انتہاپسند تنظیمیں ہوں جو دہشتگردانہ کارروائیوں کے اندر ملوث ہیں، ہمیں افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم نے اس بات کو سمجھنے میں اور منکشف کرنے میں بڑا وقت لگادیا۔

سلیم صافی: شیخ یہ جو تنظیمیں ہیں وہ کچھ شرعی حوالے دیتے ہیں مثلاً اس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ (عربی) یا پھر (عربی) اس طرح کی آیات کا وہ حوالہ دیتے ہیں کہ اگر کسی جگہ پر غیرمسلم قوتوں نے قبضہ کرلیا ہے تو وہ کہتے ہیں اس صورت میں جہاد اور قتال ہر بندے پر فرض ہوجاتا ہے، ایک تو اس میں ہماری رہنمائی کیجئے کہ اس صورت میں کہ اگر مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو اور آپ سمجھتے ہیں کہ داعش اور اس جیسی تنظیمیں بھی صحیح نہیں کررہی ہیں تو شرعی راستہ کیا ہے اور جہاد اور قتال کا اسلامی تصور کیا ہے، کیا اس کو صرف حکومت ڈیکلیئر کرسکتی ہے یا اس طرح کے گروپوں کو اس کا اختیار حاصل ہے؟

امام کعبہ: جہاد اور عن المنکر کی جو حدیث آپ نے ذکر کی کہ اگر کسی برائی کو دیکھے تو اسے تبدیل کرے، اسے ختم کرنے کی کوشش کرے، اس دونوں کے درمیان فرق ہے، یقینی طور پر جہاد اسلامی تعلیمات میں سے ایک عظیم ترین تعلیم ہے اور اسلام کے ارکان میں سے رکن ہے اور اسلام کی چھت ہے۔

’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت تک یہ جاری رہے گا لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ پوری دنیا کے اندرجہاد اور قتال منظم اسلامی امام اور حاکم کے تابع ہو کر ہی کیا جاسکتا ہے، اس سے ہٹ کر اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور آپ اس بات کی گواہی حالیہ تاریخ سے لے سکتے ہیں، یہ تمام تنظیمیں اسی لئے اپنے نعروں میں ناکام ہوئیں اور ان کی وجہ سے خرابی زیادہ پیدا ہوئی جبکہ فائدہ نہیں ہوا‘۔

’اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو حدیث ہے (عربی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جب کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اس کو تبدیل کرے، اس کو روکے، تین stages بیان کیے گئے ہیں، سب سے پہلے اپنے ہاتھ سے، پھر اپنی زبان سے اور پھر آپ نے فرمایا اگر زبان سے بھی نہیں کرسکتا تو اپنے دل سے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلا مرحلہ جو بیان کیا وہ ہاتھ سے روکنا‘۔

’ہاتھ سے روکنے پر علماء نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہ اس کے لئے حکم ہے جس کے اندر ہاتھ سے روکنے کی صلاحیت پائی جاتی ہوں، معاشروں میں ایک حاکم وقت ہے جس میں یہ صلاحیت پائی جاتی ہے اس کے نائبین ہیں، قاضی ہیں، جج ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو حکومتی عہدیداران ہیں جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے سے برائی ختم کریں اس کو ہاتھ سے روکیں‘۔

’اسی طرح ایک شخص اپنے گھر میں حاکم ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندر سے برائی کو ہاتھ سے روک سکتا ہے، اس طرح ہر صاحب صلاحیت کو ہاتھ سے روکنا ہے، جہاں پر آپ کی صلاحیت ختم ہوجائے وہاں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان سے کہا ہے، اس کو بھی اللہ کے رسول نے برائی کو روکنا ہی قرار دیا ہے، بہت سے لوگ جو اس بات کو نہیں سمجھتے وہ حدیث کے اس لفظ کی طرف غور نہیں کرتے کہ اللہ کے رسول نے زبان سے روکنے کو بھی (عربی ) ہی قرار دیا ہے‘۔

’جب کوئی شخص زبان سے کسی برائی کا انکار کرتا ہے وہ بھی درحقیقت اس برائی کو روک ہی رہا ہوتا ہے اور اس کی تبدیلی کی ہی بات کررہا ہوتا ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری جودرجہ قرار دیا ہے کہ آپ زبان سے بھی نہیں کہہ سکتے تو آپ کے دل کی کیفیت اور اس کا انکار یہ بھی اسی بات کی ہے کہ آپ نے اس برائی کو روک دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ہم سے مطالبہ دنیا سے تمام برائیوں کو ختم کر کے اس کو اپنی زندگی میں دیکھنا کہ تمام برائیاں ختم ہوگئی ہیں اس چیز کا نہیں ہے بلکہ ان برائیوں کے مقابل آپ کے دل کی اور اپنی ایمانی کیفیت کیا ہے اس کا ہے اورا س کی طرف توجہ ہونی چاہئے‘۔

سلیم صافی: شیخ یہاں پر ایک بیانیہ عام ہے کہ اگر حکومت اسلامی ہو اور خلافت علیٰ منہاج النبویہ پر قائم ہو تو پھرتو ٹھیک ہے جہاد کی ڈیکلریشن کا اختیار بھی اسے حاصل ہے، لیکن اگر حکومت ہی اسلامی نہ ہو اور اس وقت جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم ممالک میں اکثریت جو حکومتیں ہیں وہ اسلامی معیارات پر پوری نہیں اترتیں تو اس صورت میں بھی پھر کیا جہاد کی ڈیکلریشن کیلئے اس حکومت کا انتظار کیا جائے گا اور اگر حکومت جہاد کے حوالے سے اپنا فریضہ پورا نہیں کرتی تو اس صورت میں بھی کیا مسلمانوں کو انفرادی سطح پر یا اپنی ایک تنظیم بنا کر جہاد کی اجازت نہیں دی جاسکتی؟

امام کعبہ: میرے خیال میں انفرادی اور تنظیمی جہاد کی کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے،چاہے اسلامی حکومتیں کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہوجائیں،یہ ان حکومتوں کی ہی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ذمہ داری ادا کرنے پر قادر ہوں تو ادا کریں لیکن ان کے عدم قدرت کی وجہ سے انفرادی سطح پر کوئی شخص اٹھ کر یہ ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے گا تو اس کے وہی نتائج نکلیں گے جو ہمارے سامنے نکلے ہیں اورا س کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے اقدامات کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے بلکہ بہت سے اسلامی ممالک میں دشمنوں کو داخل ہونے کے مواقع اسی وجہ سے ملے ہیں کہ انہوں نے اس چیز کو فرصت سمجھتے ہوئے استعمال کیا اور عالمی سطح پر ایسا پراپیگنڈہ ہوا‘۔

’اس کے نتیجے میں یہ دشمن ممالک مسلمانوں کے ممالک میں داخل ہو کر اب ان کی ہر چیز کے مالک بن بیٹھے ہیں، یہاں پر میں یہ بات بھی آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتاہوں کہ اگر مسلمان حکومت کمزور ہے اور وہ قتال یا جہاد نہیں کرسکتی تو جس طرح ایک مسلمان کمزور ہے اور وہ بہت سارے احکامات سے معذور ہوتا ہے تو اس طرح حکومت بھی بسااوقات کچھ چیزوں سے معذور ہوتی ہے،اگر وہ اتنی کمزور ہے کہ وہ جہاد اور قتال نہیں کرسکتی تو وہ اللہ کے ہاں معذورہے،ہاں یہ ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے وہ مضبوط ہوجائے، لوگ اس کے ساتھ ملیں اور اپنی حکومت کا ساتھ دے کر مسلمان امت کی حفاظت کا کام دیں، مسلمانوں کی امت اسلامیہ کی حفاظت کی ذمہ داری سے آنکھیں نہیں موڑی جاسکتیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی بڑے فتنے کے اندر بھی مبتلا نہیں ہواجاسکتا جس سے امت کو زیادہ نقصان پہنچے‘۔

سلیم صافی: شیخ ایک تو اس وقت ظاہری بات ہے مغرب دنیا کی بڑی طاقت سمجھی جاتی ہیں اور مسلمان حکومتیں کمزور ہیں تو مغرب کے ساتھ بہتر تعلق رکھنا یا کئی معاملات میں مغرب کی رائے کو ماننا مسلمان ممالک کی کسی حد تک مجبوری بھی بن گئی ہے،لیکن دوسری طرف ہمیں یہاں پر کچھ علماء یا تنظیمیں اس آیت کا حوالہ دیتی ہیں، (عربی) وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کی روشنی میں یہود و نصاریٰ کسی بھی صورت میں ہمارے دوست نہیں بن سکتے تو اسلامی ممالک کے مغرب کے ساتھ تعلق کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور قرآن کی اس آیت کا اصل مطلب کیا ہے؟

امام کعبہ: نہایت اہم سوال، آپ کو یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہئے کہ تعلقات کا مصلحتوں کے ساتھ جڑنا اور اس کے ساتھ ساتھ دینی محبت اور الفت کے تعلقات کا قائم کرنا یہ دو نہایت مختلف چیزیں ہیں، غرب کے ساتھ یا غرب سے ہٹ کر دیگر ممالک کے ساتھ اسلامی ممالک کے تعلقات یقینی طور پر مصلحتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس کو کسی بھی طور پر (عربی آیت) کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے۔

’اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں یہ فرمایا ہے کہ (لن ترعنت یہود و نصاریٰ حتی تطبع ملتھم ) وہاں پر یہ بھی فرمایا ہے کہ (عربی) تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دلی دوست مت بناؤ۔ یہاں پراللہ نے یہ بھی فرمایا کہ (عربی) یہود و نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے دلی دوست ہیں۔یہ چیزیں دینی تعلق سے متعلق اور قلبی لگاؤ اور محبت سے تعلق رکھتی ہیں‘۔

’اس کا ممالک کی دنیاوی مصلحتوں کے ساتھ تعلق نہیں ہے، ہاں دنیاوی مصلحتوں کو چھوڑ کر اس کے ساتھ ایک دلی تعلق بنالیا جائے اور دین کو پس پشت ڈال کر ان کے ساتھ الفت و محبت کا وہ تعلق جو (عربی) کے قائدے کے تحت اسلامی شریعت میں ڈسکس ہوتا ہے اس کے تحت ان کواگر آگے بڑھالیا جائے گا تو یقینا وہ غلط بات ہوگی، یہاں یہ بھی آپ کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مصلحتیں بھی انسان کی ذاتی یا مملکتوں کی ذاتی قوت اور کمزوری کے اوپر منحصر ہوتی ہیں، ایسے وقت میں جب مسلمان کسی کمزوری میں ہوں تو اور طرح کی مصلحتیں ہوں گی اور جب طاقت میں ہوں تو اور طرح کی مصلحتیں ہوں گی اور اس کے تقاضے بھی مختلف ہوں گے‘۔

’یہاں پر میں ایک بات کا اضافہ کرناچاہتا ہوں کیونکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے جس کو اچھے طریقے سے سمجھ لینا بڑا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی اجازت دی ہے کہ مسلمان کسی اہل کتاب خاتون سے شادی کرسکتا ہے، اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی اہل کتاب خاتون سے شادی کر کے اس کے ساتھ محبت نہیں رکھے گا‘۔

’جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے کہ مقاصد نکاح جو ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ (عربی) اللہ تمہارے درمیان مودت و محبت پیدا کردے اور رحمتیں نازل ہوں۔ ظاہر بات ہے جب وہ کسی کتابیہ سے شادی کرے گا تو اس سے محبت بھی کرے گااور مودت بھی کرے گا لیکن یہ مودت دینی مودت سے بہت مختلف ہوگی،اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ ایک انسانی فطری محبت ہے،ایک دینی محبت ہے اور ایک مصلحت ہے، ان سب کے درمیان فرق کو جب ہم سمجھ لیں گے تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا‘۔

سلیم صافی: شیخ پاکستانیوں کو آپ کی رہنمائی کی بہت ضرورت ہے،یہاں بات بات پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں لوگوں کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے،اس پر رہنمائی کیجئے کہ شرعی لحاظ سے ایک مسلمان کس وقت مرتد یا کافر قرار پاتا ہے اور کسی مسلمان کو کافر ، مرتد یا واجب القتل قرار دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے یا افراد کو بھی وہ حق دیا جاسکتا ہے یا علماء کو بھی؟

امام کعبہ: یہ معاملہ تو فقہاء او ر علماء کے نزدیک بڑا واضح ہے اور امت اسلامیہ اس معاملہ کو بڑی گہرائی کے ساتھ بیان بھی کرچکی ہے، ارتداد اور کفر سے متعلق جتنے بھی معاملات ہیں یہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی فرد اٹھے اور کسی کو بھی کافر اور مرتد قرار دیدے اور وہ کافر اور مرتد اور واجب القتل سمجھاجائے گا، جس پر بھی اس قسم کا کوئی الزام لگے گا وہ معاملہ عدالت میں جائے گا، جو حکومتی ذمہ داران ہیں، جو قاضی ہے، جو جج ہے وہ اس معاملہ کے متعلق ثبوت اور گواہیاں اکٹھی کرے گا، استفسار کرے گا، پھر جس شخص پر الزام لگا ہے اس سے گہرے سوالات کیے جائیں گے کہ آیا وہ اپنے اوپر جس قسم کا الزام لگایا گیا ہے اس کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے‘۔

’اپنا کوئی بھی موقف جو وہ بیان کرتا ہے اس کے لئے کوئی تاویل بیان کرتا ہے یا وضاحت کے ساتھ ارتداد کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص کچھ باتیں تو کررہا ہو لیکن ذہنی طور پر ٹھیک نہ ہو، مجنون ہو یا اس کی ذہنی حالت ایسی نہ ہو جس میں اس کو اپنی گفتگو کی سنجیدگی کا اندازہ ہو، اس حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چاہے کفر کا معاملہ ہو، چاہے کسی کو مرتد قرار دینے کا اور قتل کرنے کا معاملہ ہو یہ صرف اور صرف اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جس نے ایک جان کو بھی ناحق قتل کیا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا‘۔

سلیم صافی: شیخ آخری سوال، بہت سارے سوالات ہیں لیکن آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اور مجھے احساس بھی ہے، سعودی عرب کی قیادت میں جو اسلامی ممالک کی اتحادی فوج بن رہی ہے یا بن گئی ہے، عام طور پر تاثر یہ ہے کہ وہ ایک اور اسلامی ملک کے خلاف یا ایک فقہ کے ممالک کے خلاف بنایا جارہا ہے، اس اتحادی فوج کا اصل مقصد اور مدعا کیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت اور پاکستانی عوام سے آپ کی توقعات کیا ہیں؟

امام کعبہ: میرے خیال میں تو اسلامی ممالک کا کسی بھی قسم کا کوئی بھی اتحادہو وہ خوشی کی بات ہے اور اس کو خوشی کی نظر سے ہی دیکھا جانا چاہئے، میرے پاس بہت زیادہ اس اسلامی اتحاد کے حوالے سے تفصیلات نہیں کیونکہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے، میرا مخصوص موضوع نہیں ہے لیکن بہرحال اگر یہ کسی اور مسلمان ممالک کی طرف سے بھی ہوتا تب بھی اس کو خوشی کی نظر سے دیکھا جاناچاہئے تھا، اس طرح کے اگر مزید اتحاد بھی بنتے ہیں جو امت اسلامیہ کو جوڑنے کا یا مسلمان ممالک کو اکٹھا کرنے کا سبب ہیں تو اس کو ہمیں اچھی نظر کے ساتھ اور اس سے متعلق خوش گمانی رکھنی چاہئے بدگمانی نہیں رکھنی چاہئے‘۔

’اس کے ساتھ ساتھ جبکہ یہ اتحاد تمام مسلمان ممالک کے لئے اس کے اندر شمولیت کا اختیار موجود ہے، کسی بھی ملک کو نام لے کر علیحدہ نہیں کیا گیا کہ فلاں ملک اس میں شامل نہیں ہوسکتا تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کسی ایک ملک کے خلاف ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اتحاد آگے چل کر کسی ایک ملک کے خلاف نہیں ہوگا، یہ حق کا ساتھ دینے کے لئے اور مسلمانوں کی مدد کرنے کے لئے اور باطل کو مٹانے کے لئے استعمال ہوگا‘۔

سلیم صافی: شیخ میں بے انتہا مشکور ہوں، میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ کن الفاظ میں آپ کا شکریہ ادا کروں، نہ صرف یہ کہ آپ کے ساتھ یہ گفتگو میرے لئے بڑی سعادت کی بات تھی خود میرے لئے بڑی رہنمائی کا ذریعہ بنی ہے اور میری دعا ہے کہ آپ کی یہ گفتگو پاکستان کیلئے بھی خیر و برکت کا باعث بنے اور پوری امت مسلمہ کے لئے بھی خیر و برکت کا باعث بنے۔جزاک اللہ خیر۔ 

امام کعبہ: مجھے بھی آپ کے اس پروگرام میں شرکت کر کے نہایت خوشی محسوس ہوئی اور میں بھی آپ کا بہت مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں آپ کے جو ناظرین ہیں ان کے ساتھ ہمکلام ہوسکوں، میں اس موقع پر ملک سلمان بن عبدالعزیز اور ان کی حکومت اور علماء کی طرف سے اور خاص طور پر آئمہ حرمین کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی طرف سے بھی پاکستانی عوام کو، پاکستان کی حکومت کو، صدر کو، وزیراعظم کو اور تمام افراد کو ملک سلمان بن عبدالعزیز کی نیک خواہشات پہنچانا چاہتا ہوں جو انہوں نے وہاں سے خصوصی ہدایات کے ساتھ مجھے یہاں پر بھیجا اور میں یہاں پاکستان میں کابینہ کے اجلاس میں بھی شریک ہوا اور یہ میرے لئے بہت خوشی کی بات تھی‘۔

’اس حوالے سے بھی میں یہاں کی کابینہ کا اور حکومتی ذمہ دارانہ کا اور یہاں پر جس کانفرنس میں میں شریک ہونے آیا تھا اور جس جس سے میں یہاں پر ملا جس محبت سے انہوں نے میرا استقبال کیا اور اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا میرے لئے وہ بڑے قیمتی ہیں اور میں آپ کا ایک مرتبہ پھر سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور آخر میں میں رب العزت کی ایک مرتبہ پھر تعریف کے ساتھ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کے ساتھ اپنی گفتگو کومکمل کرتا ہوں‘۔

نوٹ: امام کعبہ کا جیونیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں دیا گیا خصوصی انٹرویو 30 اکتوبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔

مزید خبریں :