پاکستان
Time 08 نومبر ، 2017

غیرقانونی سرگرمیوں کو چھپانے والی کمپنی سے جعلی تصفیے تک کی بھاری قیمت

اسلام آباد: جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مخالفین کے اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے 2000ء میں ایک آف شور کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی سے کیا جانے والا خفیہ معاہدہ عوامی خزانے کو بہت ہی مہنگا پڑ رہا ہے۔

اگرچہ نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ جس کمپنی سے معاہدہ کیا گیا تھا وہ ان 200 سیاستدانوں، جنرلوں، بیورکریٹس اور تاجروں کے خلاف قابل ذکر شہادتیں فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جن کےاثاثے اسے تلاش کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی، احتساب ادارے نے کسی کو ڈیڑھ ملین ڈالر کی بھاری رقم ادا کی ہے جو معاہدہ ختم ہونے کے بعد اس آف شور کمپنی کی جانب سے کام کر رہا تھا۔

اس حقیقت کا انکشاف بعد میں ہوا کہ یہ بھاری رقم غلط ہاتھوں میں چلی گئی۔ جیری جیمز نامی شخص نیب کے ساتھ ڈیڑھ ملین ڈالر کے جعلی تصفیے میں خاموشی سے شامل ہوا تھا،کمپنی کو چھوڑ کر چلا گیا اور کسی تصفیے کے لیے مذاکرات کرنے کا مجاز نہ تھا، ادائیگی وصول کرنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

دریں اثنا براڈشیٹ کے قانونی نمائندوں نے چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف آربیٹریٹر لندن میں نیب کے خلاف مبینہ طور پر سراغ لگائی گئی چوری شدہ دولت میں سے اپنے 20 فیصد کمیشن کی وصولی کے مسئلے پر درخواست دائر کی ہے۔

یہ قانونی جنگ پاکستان کو مزید لہولہان کر رہی ہے کیونکہ امریکا اور برطانیہ میں قانونی فرمز کی خدمات حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر ادائیگی پر خرچ ہو رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کیس میں متعدد قانونی دائرکار شامل ہیں۔

اس قانونی جنگ کا اختتام اب تک دکھائی نہیں دیتا کیونکہ لندن میں ثالثی عدالت میں یہ لٹکا ہوا ہے۔ اس معاملے سے ڈیل کرنے والے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ یہ تنازع 2018 میں طے ہوسکتا ہے اور اس کا نتیجہ بدستور غیریقینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ویسے یہ بہت ہی گڑبڑ معاملہ ہے۔‘‘دی نیوز کو قابل بھروسہ طور پر معلوم ہوا ہے کہ براڈشیٹ کےایک غیر مجاز نمائندے کو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے ڈیڑھ ملین ڈالر کی ادائیگی سے متعلق آڈٹ پیرا 2008 سے اب تک طے نہیں کیا جاسکا ہے۔ ابتدا سے ہی یہ عمل انتہائی پیچیدہ اور ناخوش گوار رہا ہے کیونکہ نیب کے ساتھ اثاثے برآمد کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے سے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل براڈشیٹ کو ’’آئیل آف مین‘‘ میں رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔

دونوں فریقوں کی جانب سے دستخط کردہ معاہدے کے دیباچے میں اس نئے وجود میں آنے والے ادارے کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہےکہ ’’اثاثوں اور گمشدہ فنڈز کی بازیابی میں مہارت رکھنے والی ایک کمپنی۔‘‘

ابتدائی دنوں میں نیب کا حصہ رہنے والے حکام سے تبادلہ خیال کے بعد مزید انکشاف ہوا کہ اس معاہدے سے قبل فنانس اور قانون کی وزارت سے رائے طلب کرنے جیسا کوئی موزوں طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تھا۔ معاہدے کا حصہ یہ بھی تھا کہ اس معاہدے کے متعلق کوئی معلومات کسی کو فراہم نہیں کی جائے گی۔

اس میں لکھا ہے کہ ’’نیب اور براڈشیٹ نے اس سے اتفاق کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کے متعلق معلومات یا تفصیلات کا انکشاف یا اس کی خبر کسی شخص کو فراہم نہیں کریں گے (سوائے اپنے پیشہ ورانہ مشیروں اور /یا متعلقہ حکام یا عدالتوں کو بشرطیکہ قانونی طور پر ایسا کرنے کی ضرورت ہو) اور وہ اپنے ملازمین کو بھی ایسا کرنے سے باز رکھنے کے لئے اپنی بہترین کوششوں کو بروئے کار لائیں گے۔

نیب نے 28 اکتوبر 2003 میں لندن میں اپنے وکیل کینڈل فری مین کے ذریعے یہ الزام لگا کر معاہدہ ختم کر دیا کہ براڈشیٹ نے اپنی صلا حیتو ں کے بارے میں غلط بیانی کی تھی۔ 2 برس کے بعد ’’اثاثوں کی بازیابی‘‘ میں مہارت رکھنے والی یہ آف شور کمپنی پانچ برس کی عمر میں تحلیل ہوگئی۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کمپنی صرف پاکستان کے لئے اثاثوں کی بازیابی کی خاطر بنائی گئی تھی۔

اس کے بانیوں کی اثاثوں کا سراغ لگانے کی تحقیقات کے حوالے سے کیا ساکھ تھی، وہ بدستور نامعلوم ہے۔ صرف معاہدہ پڑھنے سے ہی یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ اسے واضح طور پر کمپنی کے حق میں تیار کیا گیا تھا کیونکہ اس میں یہ بات موجود تھی کہ نیب مطلوبہ افراد سے بازیاب ہونے والی 20 فیصد رقم براڈشیٹ کو دے گی، خواہ رقم کی بازیابی کا عمل نیب کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہی کیوں نہ ہو۔

معاہدے پر اس وقت کے چیئرمین نیب اور براڈشیٹ کے نمائندے ڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر نے دستخط کیے تھے جب کہ نیب کے اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل اور پاکستان میں براڈشیٹ کے نمائندے طارق فواد ملک نے بطور گواہ دستخط کیے تھے۔

جرمی جیمز ڈاکٹر پیپر (Dr.Pepper) کے ہمراہ براڈشیٹ کے شریک بانی تھے۔ تاہم مئی 2008 میں جب نیب نے جیمز کو ڈیڑھ ملین ڈالر دے کر عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کا راستہ اختیار کیا تو وہ کمپنی کا حصہ نہیں تھے۔جیمز نے اپنے آپ کو جعلی شیئرہولڈر ظاہر کر کے نیب سے ہرجانے کی رقم حاصل کی تھی۔ حقیقت میں وہ براڈشیٹ کے نام سے ہی دو دیگر آف شور کمپنیوں کے مالک تھے جن کا دائر اختیار الگ تھا، جبکہ اثاثوں کا سراغ لگانے میں مصروف براڈشیٹ ایل ایل سی الگ ادارے کی حیثیت سے آئیل آف مین میں رجسٹرڈتھی۔

اسے پاناما میں قائم دیگر متعدد آف شور کمپنیوں کے ذریعے چلایا جا رہا تھا، برکشائر انٹرنیشنل ہولڈنگ انکارپوریٹیڈ اور آکسفورڈ انٹرنیشنل ہولڈنگ انکارپوریٹیڈ۔ اس لئے براڈ شیٹ کے حقیقی مالکان پاکستان کو ثالثی میں لے گئے۔ پاکستان کامیاب ہوتا ہے یا ناکام یہ دیکھنا باقی ہے۔ اس پر معاملے پر مزید کتنے اخراجات آئیں گے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔

مزید خبریں :