09 نومبر ، 2017
اگرنواز شریف کو پاناما کرپشن ریفرنس میں باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا جس کےبدھ کوفرد جرم عائد کئےجانےکےبعدروشن امکانات ہیں تونا اہل ہونےوالےسابق پاکستانی وزیراعظم کےوفادار شاید یہ امیدکریں کہ صدرممنون حسین معافی کاصوابدیدی اختیار استعما ل کر کےانکے لیڈرکوبچانےآئیں گےجسکی امید حقیقتاًبہت کم ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف نوعیت کےجرائم میں ملوث افراد کو صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئےمعافی دیناکوئی غیر معمولی بات نہیں ،اس حوالے سے پہلے پاکستان کاجائزہ لیاجائےتو صدر کویہ صوابدیدی اختیار 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 45 کےتحت تفویض کیاگیا۔
معافی کے صدارتی اختیارات کےحوالے سے 73ء کے آئین کی دفعہ 45میں لکھا ہے’’ صدر کوکسی بھی عدالت، ٹریبونل یاکسی اور اتھارٹی کی جانب سے دی گئی سزا کو معاف، ملتوی، تبدیل یامعطل کرنےیااسےختم کرنےکااختیار حاصل ہو گا۔‘‘
مئی 2010ءمیں اس وقت کے پاکستانی صدرآصف زرداری نےاپنےقریبی ساتھی اور ملک کےوزیرداخلہ رحمان ملک کومعافی دی جنہیں 2004ء میں کرپشن پرسزاہوئی تھی۔
18مئی 2010ء کولاہور ہائیکورٹ کےایک بنچ نے وزیرداخلہ رحمان ملک کیجانب سےکرپشن کے دو ریفر نسز میں سزا کیخلاف اپیل مستردکرکےانکی 3سال قیدکی سزا بحال کر دی تھی۔انہیں ایک احتساب عدالت نے عدم موجودگی میں 3سال کی سزادی جو لاہور ہائیکورٹ نےبرقرار رکھی تھی۔
صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر کےحوالے سے میڈیا میں آیا کہ صدر آصف زرداری نے رحمان ملک کو آئین کے آرٹیکل 45کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاف کر دیاہے۔ترجمان نے مزید بتایا کہ صدر نےسزاکووزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ایڈوائس پر معاف کیا۔
بی بی سی کی 18مئی 2010ء کی رپورٹ میں بتایا گیا’’معافی کا فیصلہ رحمان ملک کی جانب سے سزا کو چیلنج کرنے کی کوشش کو لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے مسترد کرنےکےبعدآیا ۔صدر نے’’ صوابدیدی اختیار‘‘ کا استعمال کیا جو انہیں پاکستانی عدالت کی جانب سے سزا پانے والے کسی شخص کو معاف کرنے کا حق دیتےہیں۔
یہ محاذ آرائی صدر کی جانب سے پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججز کو بحال کرنےسےانکار پر شروع ہوئی جنہیں 2007ء میں سابق صدر پرویز مشرف نے برطرف کیا تھا‘‘ برطانوی میڈیا ہاؤس نےمزیدکہا’’اگرچہ صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی ملک گیر احتجاج کےبعد عدلیہ بحالی تحریک کاہراول دستہ تھی تاہم پھر وہ اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئے اور اپوزیشن کی قیادت میں ایک اور تحریک کے بعدہی انہوں نے ہٹائےگئےججز بحال کئے۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ رحمان ملک کو 1996ء میں اس وقت کےصدر فاروق لغاری کےاحکام پر گرفتار کیا گیالیکن این آر اوسےفائدہ اٹھانےوالوں میں شامل ہونےکی بناپروہ اپنے3کرپشن کیسز ختم کرانےمیں کامیاب رہے۔ان کیسزمیں سےایک نیویارک سے تعلق رکھنےوالی دو کاروباری شخصیات عباس رضوی اور ہاشم رضوی کی لاہور میں رہائشگاہ پرایف آئی اے کے غیر قانونی چھاپےسےمتعلق تھاجوانکےحکم پرمار اگیا۔
متاثرہ فریق نے رحمان ملک کی ٹیم پر الزام لگایا کہ انہوں نے سونے کے زیوراور 7لاکھ روپے کیش اٹھایاجبکہ یہ بھی کہاکہ ایف آئی اےکےسربراہ (رحمان ملک) نےانکے خاندان کوویزےاور منشیات کےجعلی کیسز میں بھی پھنسایا۔ رحمان ملک پر ایف آئی اے کیلئے گاڑیوں کی خریداری میں ناجائزپیسہ پنانےکا بھی الزام لگایاگیا۔
یاد رہے کہ این آر او 5اکتوبر 2007ء کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کیطرف سےجاری کیاگیااس کے نتیجے میں پاکستان کےبڑےسیاستدانوں اورحکام پرعائدتمام کرپشن کے الز اما ت ختم کر دیئےگئے۔یہ سیاستدان اورحکام جنہوں نےمتنازع این آر او سےفائدہ اٹھایا پریکم جنوری 1986ء اور12اکتوبر1999ء یعنی پاکستان میں دو مارشل لائوں کےدرمیانی عرصےمیں کرپشن ، خوردبرد،منی لانڈرنگ ، قتل اوردہشتگردی کے الزامات تھے۔
بعد ازاں 16دسمبر 2009ء کوسپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سےاین آر اوکوغیرآئینی قراردیدیاگیاجس سےملک سیاسی بحران کا شکارہوگیا۔اس سے قبل نومبر 2009ء میں حکومت پاکستان نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حکم پر این آر او سےفائدہ اٹھانے والوں کی فہرست جاری کی تھی جومجموعی طورپر3041فائدہ اٹھانے والوں کےناموں پرمشتمل تھی ،ان میں اکثر بیوروکریٹس تھے تاہم کئی سیاستدان بھی اس لسٹ میں نمایاں تھے۔
اس این آر او کو عام طور پرسابق وزیراعظم بینظیربھٹو اورجنرل مشرف کےمابین شراکت اقتدارکی بنیاد سمجھا جاتا ہے جبکہ بےنظیرکو دسمبر 2007ء میں قتل کر دیا گیا۔صدارتی معافی دنیا کے مختلف حصوں میں ایک تسلیم شدہ معمول ہے۔ بھارت میں صدر کو بھارتی آئین کی دفعہ 72کے تحت معافی کا اختیار ہے۔آرٹیکل 72کے مطابق ’’صدر کوکسی بھی جرم میں دی گئی سزا کو معاف،ملتوی،تبدیل یامعطل کرنےیااسےختم کرنےکااختیار حاصل ہو گا‘‘۔
بھارت میں ریاستی گورنروں کو بھی یہ اختیار حاصل ہے۔تاہم 2006ء میں ایپورو سدھاکر،انربنام اندھرا پردیش سرکارکیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ معافی پرنظرثانی ہوسکتی ہراور اسےاستحقاق یا تکریم کےطورپر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
فاضل عدالت نے یہ آبزرویشن آندھراپردیش کے گورنرکافیصلہ ختم کرتے ہوئے دی تھی جنہوں نے کانگریس کے ایک سزا یافتہ کارکن کو معافی دی تھی ،جنوری 2017ء میں سابق بھارتی صدر پر ناب مکھرجی نے32رحم کی اپیلیں کلیئر کیں جو کہ بھارت کی حالیہ تاریخ میں کسی بھارتی صدر کی جانب سے شاید سب سےبڑی تعدادہے۔ان 32اپیلوں میں سے28کوصدر نےمستردکیاجومجموعی تعداد کا 87 فیصدہیں۔
مستردہونےوالی اپیلوں میں ممبئی حملوں میں ملوث اجمل قصاب ،ایک خاندان کے 13افراد کے قتل پر 1986ء میں سزا پانےوالےگرمیت سنگھ کی اپیل بھی شامل تھی۔24جنوری 2017ء کو’’ہفنگٹن پوسٹ‘‘ نےلکھا’’بھارتی وزارت داخلہ امور صدرکورحم کی اپیلوں پرسفارشات دیتی ہےجس نےگرمیت سنگھ کی رحم کی اپیل پرپہلی بارسفارشات 2007ءمیں بھیجیں جب صدرکلام عہدےپرتھے۔
اس اپیل پر صدرکلام اور انکےبعد پہلی خاتون صدر پرتھیبا پاٹل نےفیصلہ نہ کیا۔بھارتی صدر مکھرجی 2001ء کے پارلیمنٹ حملےکےالزام میں سزاپانے والےافضل گورو کی رحم کی اپیل پر بھی فیصلہ کیا گورو کے حوالے سے بھی وزارت نے دوبار اپنی سفارشات بھیجیں۔ پہلی سفارش 2011ء میں صدر پاٹل کو بھجوائی گئی۔ انہوں نے اپیل پر کوئی فیصلہ نے کیا۔‘‘
معروف امریکی میڈیا ہاؤس نےلکھا’’ صدروینکٹ رامن جو1987سے 1992ء کےمابین عہدے پر رہےنے 44 رحم کی اپیلیں مسترد کیں جو کسی بھی بھارتی صدر کی جانب سے سب سے بڑی تعداد ہے۔صدر پرتھیباپاٹل نے30رحم کی اپیلیں منظور کیں۔
مانا جاتا ہے کہ صدر پاٹل نےکئی کیسز میں رحم سےمتعلق اپنی حکومت سےنقطہ نظر تبدیل کرنےکاکہااور غالباً انہوں نے سب سے زیادہ رحم کی اپیلیں منظور کیں۔‘‘اگست 2017ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےپہلی بارمعافی کے اپنے اختیارات کا استعمال کیا اور ایریزونا کے سابق شیرف ارپیوکومعافی دی۔
ایریزونا کےشیرف کو31جولائی کومہاجرین کو ہدف بنانے والے گشت کو بند نہ کر کے عدالت کے 2011ء کے احکام کی دانستہ پا مالی پرتوہین عدالت پر سزا دی گئی تھی۔ انہیں اسی سال 5اکتوبر کو سزا دی گئی اور 6ماہ کیلئے جیل بھجوایا گیا۔دسمبر 2016ء میں فرانسیسی صدر فرانکواولاندےنےایک خاتون کی اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں سزامعاف کی۔ جیکولین کوصدارتی معافی پرجیل سے رہا کر دیااورگھریلو تشدد کے متاثرین کو’سخت پیغام‘ دیاگیا۔
جنوری 2016ء میں صدر اولاندے نےخاتون کو جزوی معافی دی اور انہیں پیرول لینے کی اجازت دی لیکن پروفیشنل مجسٹریٹس پر مشتمل دو عدالتوں نےاسےرہا کرنے سے انکار کر دیا۔