14 دسمبر ، 2017
اسلام آباد: اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے فاٹا اصلاحات کے معاملے پر آج بھی ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔
ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ پاکستان کی ہے کسی گورے انگریز یا کالے کی نہیں، یہ لوگوں کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے، ہم پر کوئی گوروں کا ایکٹ لاگو نہیں ہوتا، ہم نے اپنا قانون بنایا اور اس کو لاگو کیا، حکومت کا مطلب ہے محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور اتحادی۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا کے لوگوں کو قانون و آئین کا حصہ دیں، ہم ان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں، ہم انگریز کے کسی بوسیدہ قانون کو ماننے کو تیار نہیں، آئین کے اندر ہوتے ہوئے پارلیمنٹ کی اتھارٹی ختم نہیں ہونے دیں گے، یہی فیصلہ ہے اس سے سب متفق ہوں گے، فاٹا کے 95 فیصد لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انہیں پاکستان میں جانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پارلیمنٹ کو چیلنج دیا گیا ہے اور اسے ربڑ اسٹیمپ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ہم پارلیمنٹ کو کسی کی جاگیر نہیں بننے دیں گے کہ جب چاہو لے آؤ اور جب چاہو واپس لے جاؤ، جب بھی کوئی ایجنڈ آتا ہے اس پارلیمنٹ کا حصہ بنتا ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا سے متعلقہ کے پی کے کا گورنر بنایا گیا، یہ ایک علامت تھی کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے، اس سے فاٹا کے عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے، اب ہم فاٹا کے لوگوں کو قانون و آئینی حیثیت دینا چاہتے ہیں، ہم اپنی طاقت سے چلنا چاہتے ہیں، کسی گورے کے قانون کو نہیں مانتے، فاٹا کے لوگ قانونی و آئینی حق مانگ رہے ہیں، جب تک انہیں حق نہیں دیا جاتا ہم ہاؤس میں نہیں بیٹھیں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ صحیح غلط جو بھی بولے ممبر کاحق ہے، پارلیمنٹ میں جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوگا اور بل ایجنڈے پر نہیں آئے گا، ووٹ نہیں ہوگا، اپوزیشن پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھے گی، ہم اس ایوان کا واک آؤٹ کرتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ دراصل حکومت فاٹابل نہیں لانا چاہتی، پنجاب اور سندھ کے گنے کے کاشتکاروں کابراحال ہے، حکومت اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے، اب تو آرمی چیف نے بھی حمایت کر دی ہے اب کیا مجبوری ہے؟
دوسری جانب پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ فاٹا کا معاملہ قبائلی عوام کی مرضی سے طے کریں، صدر حکم جاری کریں کہ ایف سی آر کا خاتمہ کردیا، فاٹا کو منتخب گورنر دیں جو صدر کو جواب دہ ہو۔
محمود اچکزئی نے کہا کہ صرف گالیاں نہ دیں ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔
آفتاب شیر پاؤ کا کہنا تھا کہ حکومت بتائے فاٹا کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کیا کرنا چاہتی ہے۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ نے مطالبہ کیا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنایا جائے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ وہ دو افراد یہاں نہیں جن کی وجہ سے فاٹا کا معاملہ رُکا ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے سچ بولنا شروع کردیا ہے، اب ملک بچانے کی ایک ہی راہہے کہ قبل ازوقت انتخابات ہیں، مارچ میں استعفوں کی بہارآرہی ہے، موجودہ حالات میں سپریم کورٹ فیصلہ کردے۔
حکومت کی جانب سے وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، اعلیٰ عدلیہ کی حدود کا دائرہ وسیع کرنے کا معاملہ بھی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ فاٹا معاملے پر بل لانا ضروری تھا یہ بل پیر کو پیش کیا جانا تھا لیکن یہ ہمارا عزم ہے کہ یہ بل آئے گا وقت کے تعین کا معاملہ سامنے آیا۔
اس سے قبل جب آفتاب شیر پاؤ اظہار خیال کے لیے اٹھے تو تحریک انصاف کے رکن علی محمد خان نے ایوان میں شور شرابا کیا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔
ڈپٹی اسپیکر کے بار بار ٹوکنے کے باوجود علی محمد کھڑے ہوکر بولتے رہے جس پر ڈپٹی اسپیکر نے انہیں ڈانٹ دیا۔
واضح رہےکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاٹا اصلاحات بل پر ڈیڈ لاک برقرار ہے جب کہ اس حوالے سے اپوزیشن نے حکومت سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔